ایک بندہ سونے کی دکان کھول رہا ہے، اس کا دوست اس کو یہ کہتا ہے کہ یہ میرا پانچ تولہ سونا ہے، یہ لے لے اور اپنے کاروبار میں لگا لے اور جب مجھے تین چار سال بعد ضرورت پیش آئے گی تو آپ مجھے میرے سونے کے ساتھ ساتھ کچھ منافع کی صورت میں زیادہ دے دینا۔ کیا اس طرح کا معاملہ کرنا درست ہے؟
آپ نے جو صورت سوال میں لکھی ہے اس کے جواز کی درست صورت یہ ہے کہ جو دوست اپنا کچھ سونا دینا چاہتا ہے اس کو شریک بنا لیا جائے اور دونوں کے مالوں کا تناسب معلوم کر لیا جائے اور اسی تناسب سے (یعنی اسی فیصد کے اعتبار سے)یا اس میں کمی بیشی کر کے منافع کا حساب لگا لیا جائے۔
یا جو دوست اپنا کچھ سونا دینا چاہتا ہے وہ بطورِ مضاربت اپنا سونا دے دے، اس صورت میں کاروبار کرتے ہوئے اس سونے کے حساب کو دیگر اموال کے حساب سے الگ رکھنا ہو گا اور اس سونے میں جتنا منافع ہو اس کو باہم طے کردہ فیصدی تناسب سے تقسیم کر لیا جائے۔فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144106200462
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن