بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر سے خالی کاغذ پر دستخط لے کر سسرال والوں کا ازخود طلاق کا مضمون لکھنا


سوال

میرے پاس میرے سسر صاحب آئے ، میرے گھر والوں نے جیسے تیسے مجھے اٹھایا، اور وہ بہت غصہ میں آئے  اور مجھ سے بات کی  اور مجھے  hypoglcimeia ہے، جس کی وجہ سے  اچانک شوگر 23، 30 ہوجاتی ہے، اس کے لیےجب طبیعت بگڑتی ہے تو  میں ہسپتال میں ایڈمٹ بھی رہتا ہوں ، اور ابھی بھی مجھے ڈاکٹر نے کہا ہے کہ کسی وقت طبیعت خراب ہوتو فوراً آؤ، کیوں کہ ڈائرکٹ کومہ میں بھی جاسکتے ہو، یہ سب میرے پاس میڈیکل رکارڈ میں موجود ہے،  اور ان لوگوں نے مجھ سے  کاغذ پر سائن کروایا  جس پر کچھ نہیں لکھاتھا اور ان دنوں میں ہسپتال سے ڈِس چارج ہوکر آیا تھا، بہرحال وہ پیپر میں نے  ٹینشن میں دستخط کردی؛ اس لیے کہ اگر میری بیوی چاہ رہی ہے  یا کوئی خلع کا ارادہ ہے مطلب اس کو  وہ پیپر دکھادیں  یا کچھ بھی اس لیے سائن تھے بس۔

1۔نہ ہی میں نے پیپر پر کچھ لکھا ، بالکل خالی  پیپر تھا (صرف دکھانے کے لیے) ۔

2۔ نہ ہی طلاق کے کوئی الفاظ میں کہے، بعد میں  میرے پاس وہ پیپر آیا ، اس میں لکھا تھا  کہ اپنی بیوی کو پورے ہوش وہواس میں طلاق کہتا ہوں ، میں نے ان کو بولا: یہ میں نے نہیں لکھا، اور میں قرآن کی  قسم کھا سکتا ہوں کہ میں نے کوئی الفاظ ادا نہیں کیے، سائن صرف اس لیے کیے تھے کہ اس وقت میں شدید دوائیوں کے اثر میں تھا اور ہسپتال سے ڈِس چارج ہوکر آیا تھا،میرے والد صاحب نے بھی منع کیا تھا کہ کوئی اس سے بات نہ کرے، اس کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔

3۔ تو جب میں نے کچھ کہا ہی نہیں ، نہ طلاق کا بولا، نہ پیپر پر کچھ لکھا، اور ان کو بول بھی رہا ہوں ایسا کچھ نہیں ہے، وہ کہہ رہے ہیں کہ طلاق ہوگئی، براہ مہربانی راہ نمائی فرمائیں ، میں کافی پریشان ہوں  اور میرا ایک بیٹا بھی ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں ذکر کردہ تفصیل اگر واقعہ کے مطابق اور درست ہے کہ  سائل کے سسرال والوں نے اس سےخالی کاغذ پر دستخط لیے، اور سائل نے ذہنی دباؤ اور پریشانی میں اس پر دستخط کیے، اور اس وقت  نہ بعد میں سائل نے  زبان سے طلاق کے الفاظ نہیں کہے اور نہ کاغذ پر طلاق کے الفاظ لکھے اور نہ ہی سسرال والوں کو طلاق کے الفاظ لکھنے کا کہا یا اختیار دیا،   بعد ازاں اس کاغذ  پر سائل کے سسرال والوں نے ازخود طلاق کا مذکورہ مضمون لکھا،  سائل اس تحریر  کا اقرار  بھی نہیں کرتا ہے تو ایسی صورت میں سائل کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، دونوں کا نکاح بدستور قائم ہے۔ 

 فتاوی شامی میں ہے:

" طلب أولياؤها طلاقها، فقال الزوج لأبيها: ما تريد مني؟ افعل ما تريد! وخرج فطلقها أبوها لم تطلق إن لم يرد الزوج التفويض؛ فالقول له فيه، خلاصة.

(قوله: ما تريد مني) استفهام، وقوله: افعل ما تريد أمر (قوله:لم تطلق إلخ) أي؛ لأنه وإن كان في مذاكرة الطلاق لكنه لا يتعين تفويضاً؛ لاحتمال التهكم أي افعل إن قدرت، تأمل" . (3/330، باب الامر بالید، کتاب الطلاق، ط: سعید)

وفیہ ایضاً:

"وكذا كل كتاب لم يكتبه بخطه ولم يمله بنفسه لا يقع الطلاق ما لم يقر أنه كتابه" . (3 / 247، کتاب الطلاق، ط: سعید) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909200967

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں