میرے گھر میں کہیں سے ایک طوطا آگیا ہے، اس کے مالک کا معلوم نہیں ہے، اگر میں اس کو چھوڑتا ہوں تو وہ اڑ نہیں سکتا، ایسی صورت میں کیا میں اس کو اپنے پاس رکھ سکتا ہوں؟
صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ طوطا پالتو ہےتو یہ اس کے اصل مالک ہی کی ملکیت ہے، مالک کو واپس کرنا ضروری ہے، اگر مالک معلوم نہ ہو تو مالک کو تلاش کرنے کی کوشش کریں، اوراس وقت تک آپ اس کو اپنے پاس رکھ سکتے ہیں، اس دوران اگر مالک واپس آجائے تو اس کو واپس کردیں، اگر مالک واپس نہ آئے تویہ ظن غالب ہونے کے بعد کہ اب اس کا مالک نہیں آئے گا اس کو فروخت کرکے رقم مالک کی طرف سے صدقہ کردیں، اور اگر اپنے پاس رکھنے میں اس پر خرچہ ہو اور آپ یہ از خود نہیں کرنا چاہتے تو کسی معتمد شخص کو بتاکر اس کو فروخت کرکے اس کی رقم محفوظ رکھ لیں، پھر اگر مالک آجائے تو اس کو رقم دے دیں اور اگر مالک سال تک نہ آئے تو اس رقم کو مالک کی طرف سے صدقہ کردیں۔
فتح القدير للكمال ابن الهمام (6/ 126):
"(وإذا رفع ذلك إلى الحاكم نظر فيه، فإن كان للبهيمة منفعة آجرها وأنفق عليها من أجرتها) لأن فيه إبقاء العين على ملكه من غير إلزام الدين عليه وكذلك يفعل بالعبد الآبق (وإن لم تكن لها منفعة وخاف أن تستغرق النفقة قيمتها باعها وأمر بحفظ ثمنها) إبقاء له معنى عند تعذر إبقائه صورة (وإن كان الأصلح الإنفاق عليها أذن في ذلك وجعل النفقة دينا على مالكها) لأنه نصب ناظراً وفي هذا نظر من الجانبين، قالوا: إنما يأمر بالإنفاق يومين أو ثلاثة أيام على قدر ما يرى رجاء أن يظهر مالكها، فإذا لم يظهر يأمر ببيعها لأن دارة النفقة مستأصلة فلا نظر في الإنفاق مدة مديدة". فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144004200500
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن