ایک شخص اپنے بیٹے کو عاق کرے تو واقعی وہ عاق ہوگا یا نہیں؟ اور پھر جب باپ رجوع کرتا ہے تو اس باپ کا رجوع کرنا کیسا ہے؟
واضح رہے کہ عاق کرنے کی شرعاً کوئی حیثیت نہیں ہے، یہ بے اصل ہے، والد کا اپنی اولا د میں سے کسی کو عاق کرنے سے وہ عاق نہیں ہوگا، بلکہ وہ بدستور اس کی اولاد میں رہے گا اور والد کی میراث میں اُسےاُس کا شرعی حصہ ملے گا، البتہ جو اولاد والدین کی نافرمانی کرے وہ کبیرہ گناہ کا ارتکاب کررہی ہے،جس پر عنداللہ اُ ن کامواخذہ ہوگا۔ باقی جب عاق کرنے کا شرعاً کوئی اعتبار نہیں ہے تو شرعاً عاق کرنے سے رجوع کی بھی ضرورت نہیں، البتہ غیر شرعی عمل کرنے پر استغفار کرنا چاہیے، اور جس سطح پر عاق کرنے کا اعلان کیا گیا، اس سطح پر اس غیر شرعی عمل سے رجوع بہتر ہوگا۔
وفي تکملة رد المحتار لمحمد علاء الدین:
"الإرث جبري لا يسقط بالإسقاط ... الخ" (کتاب الدعوی ،باب التحالف ،فصل فی دفع الدعاوی ،ج:۷،ص:۵۰۵،ط:سعید) فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144106200541
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن