علمِ حدیث کی تعریف، موضوع اور غایت کیا ہے?
علمِ حدیث ان قوانین کے جاننے کا نام ہے جس میں سند اور متن کے اَحوال سے بحث کی جاتی ہے۔
موضوع : سند اور متن۔
غرض وغایت : صحیح اور غیر صحیح کو پہچاننا .
یہ تعریف علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے ’’ تدریب الراوی‘‘ کے مقدمہ میں ذکر کی ہے۔ یہ مختصر اور جامع تعریف ہے ، ملاحظہ ہو :(مقدمہ تدریب الراوی ،ص: ۱۹ ،ط:مکتبہ توفیقیہ قاہرہ مصر )
اس کے علاوہ دیگر حضرات نے اس کی مختلف تعریفیں کی ہیں، مثلاً: مولانا ظفر احمد عثمانی صاحب رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’قواعد في علوم الحدیث‘‘ میں اس کی تفصیل یوں بیان کرتے ہیں :
علم حدیث دو طرح سے ہے:
۱۔علمِ حدیث روایۃً
۲۔علمِ حدیث درایۃً
علمِ حدیث روایۃً : وہ علم ہے جس کے ذریعے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، افعال، احوال اور ان کی روایت کو ، انہیں ضبط کرنے اور ان کے الفاظ لکھنے کو جانا جاتا ہے۔
علمِ حدیث درایۃً : وہ علم ہے جس کے ذریعے روایت کی حقیقت ، اس کے شرائط ، اقسام ، احکام ، راویوں کے احوال ، ان کے شرائط ، اور روایات کی قسمیں اور اس کے متعلقات کو جانا جاتا ہے ۔
اس کی غرض وغایت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا :’’اس کا فائدہ دونوں جہانوں کی کامیابی کو حاصل کرنا ہے اور صحیح اور غیر صحیح کو جانا ہے‘‘۔ (قواعد فی علوم الحدیث ، المقدمۃ فی المبادی والحدود :۲۲ ،ط: ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیۃ )
اور اس کے موضوع کو یوں بیان کیاہے : اس کا موضوع : سند اور متن ہے۔ بعض حضرات نے فرمایا کہ اس کا موضوع ذاتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے رسول ہونے کی حیثیت سے۔(ایضاً)
اس کے علاوہ دیگر حضرات نے بھی اس کی تعریفات کی ہیں، لیکن یہ تعریفیں واضح اور مختصر ہیں اس لیے اسی کو ذکر کیا گیا ہے ۔فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144103200506
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن