یہ جو ستارے ہوتے ہیں، (مثلاً برج سنبلہ، ورگو وغیرہ) ان کی چال سے مستقبل کے حالات کے حوالے سے جاننا سننا کیسا ہے؟
ستاروں کی چال سے مستقبل کے حالات جاننے کی کوشش کرنا، اور ان باتوں پر یقین کرنا ناجائز و حرام ہے۔ ستاروں کا علم سیکھنے کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نا پسند فرمایا ہے۔ ستاروں کی تخلیق کے من جملہ فوائد میں سے اللہ رب العزت نے ان کے ذریعے سمت، راستے اور اوقات کا جاننا بیان فرمایا ہے۔ لہٰذ ا سمت، راستے، اوقات وغیرہ جاننے کے لیے تو ستاروں کے علوم سیکھ سکتے ہیں۔ نیز ان کی چال سے ظنی اور تخمینی طور پر موسم کے اندازا کیا جاسکتاہے، جیساکہ خاص اوقات اور کیفیات سے بادلوں کے جمع ہونے سے بارش برسنے پر ممکنہ استدلال کیا جاتاہے، لیکن قطعی اور یقینی طور پر دعویٰ نہیں کیا جاسکتا۔
سنن ابن ماجہ میں ہے:
"حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَخْنَسِ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنِ اقْتَبَسَ عِلْمًا مِنَ النُّجُومِ، اقْتَبَسَ شُعْبَةً مِنَ السِّحْرِ زَادَ مَا زَادَ". (سنن ابن ماجه، كِتَابُ الْأَدَبِ، بَابُ تَعَلُّمِ النُّجُومِ، رقم: ٣٧٤٩)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ جس نے علم نجوم میں سے کچھ حاصل کیا ، اس نے سحر (جادو ) کا ایک حصہ حاصل کرلیا ، اب جتنا زیادہ حاصل کرے گا گویا اُتنا ہی زیادہ جادو حاصل کرے گا‘‘۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں ستاروں کی چال دیکھ کر مستقبل کے حوالے پیش گوئی کرنا، یا کسی کے دعوے کو تسلیم کرنا، یا ایسی باتوں میں دل چسپی لینے سب ناجائز ہوگا۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144105200477
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن