میں قطر میں رہتا ہوں، کیا ہم کسی غیر مسلم کے گھر جا سکتے ہیں اور وہاں کھا بھی سکتے ہیں؟ اسی طرح ان کو اپنے گھر بھی بلا سکتے ہیں؟ میرے آفس میں ایک ہندو لڑکا ہے اس نے ہمیں ایک پاکستانی ریسٹورنٹ میں دعوت دی، جس میں سب کی فیملیز بھی شامل تھی مردوں اور عورتوں میں پارٹیشن تھا، کیا ایسی دعوت میں جانا جائز ہے جو کہ ایک ہندو نے دی؟ اور وہ ہندو لڑکا نہ میرا باس ہے اور نہ میں اس کا باس ہوں۔
غیر مسلموں کو اسلام کی طرف مائل کرنے کی غرض سے ان کے گھر جانے یا انہیں اپنے گھر بلانےکی اجازت ہے، اسی طرح ان کی دعوت میں شرکت کرنے کی بھی اجازت ہے، بشرطیکہ دعوت کسی مذہبی تہوار کی مناسبت سے نہ ہو، یا دعوت میں حرام اشیاء (شراب ، خنزیر یا حرام ذبیحہ وغیرہ) نہ ہوں، تاہم کفار کے ساتھ دوستانہ تعلقات (دلی محبت یا ان کی طرف میلان) رکھنا جائز نہیں ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"الْأَكْلَ مَعَ الْمَجُوسِيِّ وَمَعَ غَيْرِهِ مِنْ أَهْلِ الشِّرْكِ أَنَّهُ هَلْ يَحِلُّ أَمْ لَا؟ وَحُكِيَ عَنْ الْحَاكِمِ الْإِمَامِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْكَاتِبِ أَنَّهُ إنْ اُبْتُلِيَ بِهِ الْمُسْلِمُ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ فَلَا بَأْسَ بِهِ، وَأَمَّا الدَّوَامُ عَلَيْهِ فَيُكْرَهُ، كَذَا فِي الْمُحِيطِ.
وَذَكَرَ الْقَاضِي الْإِمَامُ رُكْنُ الْإِسْلَامِ عَلِيٌّ السُّغْدِيُّ أَنَّ الْمَجُوسِيَّ إذَا كَانَ لَا يُزَمْزِمُ فَلَا بَأْسَ بِالْأَكْلِ مَعَهُ وَإِنْ كَانَ يُزَمْزِمُ فَلَا يَأْكُلُ مَعَهُ؛ لِأَنَّهُ يُظْهِرُ الْكُفْرَ وَالشِّرْكَ، وَلَا يَأْكُلُ مَعَهُ حَالَ مَا يُظْهِرُ الْكُفْرَ وَالشِّرْكَ، وَلَا بَأْسَ بِضِيَافَةِ الذِّمِّيِّ وَإِنْ لَمْ يَكُنْ بَيْنَهُمَا إلَّا مَعْرِفَةٌ، كَذَا فِي الْمُلْتَقَطِ. وَفِي التَّفَارِيقِ: لَا بَأْسَ بِأَنْ يُضِيفَ كَافِرًا لِقَرَابَةٍ أَوْ لِحَاجَةٍ، كَذَا فِي التُّمُرْتَاشِيِّ.
وَلَا بَأْسَ بِالذَّهَابِ إلَى ضِيَافَةِ أَهْلِ الذِّمَّةِ، هَكَذَا ذَكَرَ مُحَمَّدٌ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى -، وَفِي أُضْحِيَّةِ النَّوَازِلِ: الْمَجُوسِيُّ أَوْ النَّصْرَانِيُّ إذَا دَعَا رَجُلًا إلَى طَعَامِهِ تُكْرَهُ الْإِجَابَةُ، وَإِنْ قَالَ: اشْتَرَيْت اللَّحْمَ مِنْ السُّوقِ فَإِنْ كَانَ الدَّاعِي نَصْرَانِيًّا فَلَا بَأْسَ بِهِ". (الْبَابُ الرَّابِعَ عَشَرَ فِي أَهْلِ الذِّمَّةِ وَالْأَحْكَامِ الَّتِي تَعُودُ إلَيْهِمْ، ٥ / ٣٤٧) فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144105201018
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن