بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

قرآن کریم کا کتنا علم حاصل کرنا فرض ہے؟


سوال

کیا قرآن مجید کے مکمل پیغام کو جاننا ہر ایک مسلمان کے لئے فرض ہے؟ قرآن مجید کا کتنا علم حاصل کرنالازم ہےاور کیاطریقۂ کار اختیار کیا جائے؟ میرا مطلب ہے کہ ایک عام مسلمان کے لیے اسلام سیکھنے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟ دین کی مکمل تفہیم کی سمت چلنے کے لیے کون  کون سے صحیح طریقے اور اقدامات ہیں؟ ان دنوں جب کوئی اللہ کے احکامات کی طرف راغب ہونا چاہتا ہے تو اسے قرآن مجید کا ترجمہ پڑھنے یا تفسیر کی کلاسوں میں شامل ہونے کے لیے کہا جاتا ہے، لوگوں نے گھروں میں گروپ بناکرایک دوسرے سے قرآن مجید سیکھنا شروع کردیا ہے اور وہ دینی علوم میں بہتری لانے کے لیےقرآن مجید کے مضامین پرآپس میں تبادلہ خیال کرتے ہیں،کیا اللہ کے احکاموں کا علم حاصل کرنا ہمارے طریقوں کو درست کرنے کے لیے کافی ہے یاایمان کی درستگی پہلی ضرورت ہے، علم اور عمل کے مابین کیا حائل ہے ، کیوں ہم اپنے نبی پاک  ﷺاور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے طریقوں سے اتنادور ہیں؟

جواب

قرآن کریم اللہ رب العزت کی جانب سے نوع انسانی کے لیے پیغام ہے، جس میں اس کی دنیا اور آخرت کی  کامیابی و کامرانی کا نسخہ اور ناکامی اور نامرادی کے اسباب کا بیان ہے، قرآن کریم اللہ رب العزت کا کلام ہے، اس لیے تمام کلاموں پر اس کی فوقیت اور بلندی واضح ہے، اس کے کچھ حقوق ہیں، اس کا ادب کیا جائے، اس  کے الفاظ سیکھے جائیں اور اس کے معانی میں غور و فکر کیا جائے،     اللہ تعالی نے انسانوں کو قرآن کریم کی آیات میں تدبر و تفکر کا حکم دیا، چناں چہ ارشاد ہے :

كتاب أنزلناه إليك مبارك ليدبروا آياته وليتذكر أولو الألباب [ص: 29]

"یہ کتاب ہے، جسے ہم نے نازل کیا ، مبارک ہے تاکہ لوگ اس کی آیات  میں غور و فکر کریں  اور عقل مند نصیحت حاصل کریں"۔

تفسیر ابن کثیر میں حسن بصری رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ : بخدا! قرآن کریم کا تدبر اس کے حروف کو یاد کرنے اور اس کے حدود کی پامالی کا نام نہیں، کہنے والا کہتا ہے کہ : میں نے پورا قرآن کریم پڑھ لیا ، جب کہ قرآن کریم نہ اس کے اخلاق میں نظر آتا ہے اور نہ اس کے اعمال میں۔

دوسری جگہ ارشاد فرمایا کہ :

أفلا يتدبرون القرآن أم على قلوب أقفالها [محمد : 24]

'' کیا یہ قرآن کریم میں غور و فکر نہیں کرتے یا  ان کے دلوں میں تالے لگے ہوئے ہیں"۔

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ : اللہ تعالی قرآن کریم میں غور و فکر اور اس کے سمجھنے کا حکم اور اس سے اعراض کرنے سے منع کرتے ہیں، چناں چہ فرماتے ہیں کہ : ،یعنی ان کے دلوں پر تالے پڑے ہیں، لہذا وہ بند ہوچکے ہیں، جس کی وجہ سے اس کے معانی میں سے کچھ بھی اس کی جانب سرایت نہیں کرتا۔

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا کہ :

الذين آتيناهم الكتاب يتلونه حق تلاوته أولئك يؤمنون به ومن يكفر به فأولئك هم الخاسرون [البقرة: 121]

'' وہ لوگ جنہیں ہم نے کتاب دی وہ اس کی ایسی تلاوت کرتے ہیں جیسا کہ اس کی تلاوت کا حق ہے، یہ لوگ اس پر ایمان رکھتے ہیں  اور جو لوگ اس کا انکار کریں وہ خسارے میں ہیں"۔

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ : حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :کا مطلب ہے کہ جب جنت کے تذکرے سے گزرے تو جنت مانگے اور جب جہنم کے تذکرے سے گزرے تو جہنم کی پناہ مانگے۔

حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے، قرآن کریم کی تلاوت کا حق یہ ہے کہ اس کے حلال کو حلال سمجھے ، اس کے حرام کو حرام سمجھے، اسے اس طرح سے پڑھے جیسا کہ اللہ تعالی نے اسے اتارا ہے ، اس کے کلمات کو اپنی جگہ سے پھیرے نہیں اوراس کی کسی آیت کی بے جا تفسیر نہ کرے۔

لیکن یہ بات ملحوظ رہے کہ قرآن کریم میں تدبر اور غور و فکر دو طرح کا ہے:

1۔ عام آدمی کا تدبر اور غور و فکر ، جو کسی ماہر اور مستند شخص سے قرآن کریم کا ترجمہ سیکھ کر اللہ رب العزت کی قدرت کا مشاہدہ کرتا ہے، رسولوں کے طریقے جانتا ہے۔

2۔ قرآن کریم سے احکام نکالنے کے لیے غور و فکر کرنا، یہ ہر کس و ناکس کا کام نہیں، اس کے لیے کئی علوم میں مہارت ضروری ہے۔

اس لیے جب ہم عمومی سطح پر قرآن کریم کے معانی سیکھنے کی بات کرتے ہیں تو اس سے پہلی نوع کا تدبر اور تفقہ مقصود ہوتا ہے۔

اس تمہید کے بعد یہ جان لیں کہ : اتنا قرآن مجید سمجھنا  اور سیکھنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے جس سے وہ حلال اور حرام کو سمجھ سکے ، اس کے لیے کسی ماہر مستند عالم دین کی خدمت میں حاضر ہوکر قرآن کریم کے معانی سیکھے جائیں یا کسی مستند ترجمے کا مطالعہ کسی  مستند عالم دین کی رہبری میں کیا جائے، لیکن قرآن کریم کے معانی میں ہر کس و ناکس کو اپنی رائے پیش کرنے کی اجازت نہیں۔

تفسير ابن كثير / دار طيبة - (7 / 64)

قال الحسن البصري: والله ما تدبره بحفظ حروفه وإضاعة حدوده، حتى إن أحدهم ليقول: قرأت القرآن [كله] ما يرى له القرآن في خلق ولا عمل. رواه ابن أبي حاتم .

تفسير ابن كثير / دار طيبة - (7 / 320)

يقول تعالى آمرا بتدبر القرآن وتفهمه، وناهيا عن الإعراض عنه، فقال: { أفلا يتدبرون القرآن أم على قلوب أقفالها } أي: بل على قلوب أقفالها، فهي مطبقة لا يخلص إليها شيء من معانيه.

تفسير ابن كثير / دار طيبة - (1 / 403)

وقال ابن أبي حاتم: حدثنا أبي، حدثنا إبراهيم بن موسى، وعبد الله بن عمران الأصبهاني، قالا حدثنا يحيى بن يمان، حدثنا أسامة بن زيد، عن أبيه، عن عمر بن الخطاب { يتلونه حق تلاوته } قال: إذا مر بذكر الجنة سأل الله الجنة، وإذا مر بذكر النار تعوذ بالله من النار

وقال أبو العالية: قال ابن مسعود: والذي نفسي بيده، إن حق تلاوته أن يحل حلاله ويحرم حرامه ويقرأه كما أنزله الله، ولا يحرف الكلم عن مواضعه، ولا يتأول منه شيئا على غير تأويله.

فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144012201800

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں