کیا فرما تے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متیں مسئلہ ذیل کے سلسلے میں:
ایک کمپنی ہے جو بائیک خرید کر کرائے پر چلاتی ہے اور جس شخص سے کمپنی گاڑی لیتی ہے اس سے یہ معاہدہ ہوتا ہے کہ 12مہینے تک آپ کو آپ کی گاڑی کی قیمت قسطوں میں ادا کردیں گے، اور بارہ مہینوں کا کرایہ بھی آپ کو دیں گے، جیسے ہر مہینے 5000 کی قسط اور 4000 روپے کا کرایہ کمپنی اس شخص کو دے گی جس سے گاڑی خریدی ہے، اس گاڑی والے کو ایک سال میں تقریباً 50000 روپے کی بچت ہوگی، اگر کوئی نقصان ہوا تو کمپنی اس کی ذمہ دار ہو گی، کیا اس طرح کی ڈیل کرنا شریعت کی رو سے صحیح ہے یا نہیں؟
مذکورہ معاملہ شرعاً درست نہیں ہے؛ کیوں کہ اس معاملہ میں بیک وقت ایک ہی عقد میں دو مختلف معاملات (بیع: یعنی خرید و فروخت اور اجارہ: یعنی کرایہ داری) کو جمع کیا جارہا ہے (یعنی کمپنی جس شخص سے گاڑی لے رہی ہے، اس سے بیک وقت ایک ہی چیز میں بیع اور اجارہ دونوں کا معاملہ ہورہا ہے)، جو کہ شرعاً درست نہیں ہے؛ نبی کریم ﷺ نے ایک معاملہ کے اندر دوسرے کو داخل کرنے سے منع فرمایا ہے۔
صحيح ابن حبان - مخرجا (11/ 399):
"عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ أَنَّهُ قَالَ: «لَا تَحِلُّ صَفْقَتَانِ فِي صَفْقَةٍ، وَأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَعَنَ آكِلَ الرِّبَا، وَمُوكِلَهُ، وَشَاهِدَيْهِ، وَكَاتِبَهُ»".
نیز اس معاملہ کو دوسرے پہلو سے دیکھا جائے تو اس میں ایک بات قابلِ اشکال یہ بھی ہے کہ یہاں بیع ایسی شرط کے ساتھ مشروط ہے جس میں بائع (گاڑی کے سابق مالک) کا فائدہ ہے، یعنی گاڑی کا مالک اس شرط پر بیچ رہاہے کہ خریدار ایک سال تک اس کا کرایہ مجھے دے گا، جب کہ کمپنی جب اس بائیک کو خرید لیتی ہے تو اس بائیک کی مالک بن جاتی ہے، اگرچہ ساری قسطیں ادا نہ بھی کی ہوں، تو پھر ماہانہ کرایہ ادا کرنے کا مطلب یہ ہوا کہ کمپنی اپنی ہی مملوکہ چیز کا کرایہ (مشروط طور پر) ادا کر رہی ہے، جو کہ درست نہیں۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 143908200763
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن