بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

لڑکی والوں کا رخصتی کے موقع پر دعوت نہ کرنا تیسرے دن دعوت کرنا


سوال

میری برادری میں ایک رواج ہے، کیا یہ خلافِ سنت ہے؟شرعاً اس کا کیا حکم ہے؟ رواج یہ ہے کہ لڑکی کی رخصتی ہوتی ہے، تب لڑکی والے اس وقت ایک کھجور کی گٹھلی بھی نہیں کھلاتے اور کچھ دن بعد ایک دعوت رکھتے ہیں کہ بیٹی کا فریضہ ادا ہوا ہے اور داماد کا تعارف رشتہ داروں میں ہو جائے، اس میں نہ لڑکے والے یہ کہتے ہیں کہ ہم اتنے افراد لائیں گے اور نہ ہی کوئی فرمائش ہوتی ہے۔( جیسے کہ بارات میں ہوتا ہے۔) اس طرح دعوت میں شرکت کرنا اور مدعو کرنا کیساہے؟ (مشہور یہ ہے کہ لڑکی کا کھانا سنت سے ثابت نہیں) کیا مذکورہ دعوت کا طریقہ اسی زمرہ میں آئے گا؟ نیز ادھار لے کر اس طرح دعوت کرنا کیسا ہے؟

جواب

                      رخصتی کے موقع پر لڑکی والوں کی طرف سے کھانے کا انتظام کرنا  ولیمہ کی طرح سنت نہیں  ہے، ہاں اگر کوئی نمود ونمائش سے بچتے ہوئے، کسی قسم کے زبردستی اور خاندانی دباؤ کے بغیر اپنی خوشی و رضاسے اپنے رشتے داروں اور مہمانوں کوکھانا کھلائے تو یہ مہمانوں کا اکرام ہے، اور اس طرح کی دعوت کا کھانا کھانا بارات والوں کے لیے جائز ہے، اور اگر  لڑکی والے خوشی سے نہ کھلائیں تو زبردستی کرکے کھانا کھانا جائز نہیں ہوگا۔

سنن أبی داود میں ہے:

"عن أبي شريح الكعبي، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم ضيفه، جائزته يومه وليلته، الضيافة ثلاثة أيام وما بعد ذلك فهو صدقة، ولايحل له أن يثوي عنده حتى يحرجه· (کتاب الأطعمة، باب ما جاء في الضیافة ط: المكتبة العصرية)

مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ صاحب تحریر فرماتے ہیں:

                          "لڑکی والوں کی طرف سے براتیوں کو یا برادری کو کھانا دینا لازم یا مسنون اور مستحب نہیں ہے، اگر  بغیرالتزام کے وہ اپنی مرضی سے کھانا دے دیں تو مباح ہے، نہ دیں تو کوئی الزام نہیں" ۔ (کفایت المفتی، 7/471، باب العرس والولیمہ، ط: فاروقیہ)

فتاوی  محمودیہ میں ہے

                                   "جو لوگ لڑکی والے کے مکان پر مہمان آتے ہیں اور ان کا مقصود شادی میں شرکت کرنا ہے اور ان کو بلایا بھی گیا ہے تو آخر وہ کھانا کہاں جاکر کھائیں گے!اور اپنے مہمان کو کھلانا  تو شریعت کا حکم ہے، اور حضرت نبی اکرم ﷺ نے تاکید فرمائی ہے"۔ (12/142، باب العروس والولیمہ، ط:فاروقیہ)

                          لیکن اگر لڑکی والے بارات کے موقع پر دعوت نہیں کرتے،   شادی کے کچھ دنوں کے بعد دعوت کرتے ہیں تو اس کی گنجائش ہے، بشرطیکہ لڑکی والے برضا و خوشی یہ دعوت کریں، اس میں ریا اور دکھلاوا نہ ہو ، اس دعوت کے اہتمام کرنے میں لڑکی والوں پر کسی قسم کا دباؤ نہ ہو ، اور اس دعوت کا التزام اس قدر نہ ہو کہ لڑکی والے قرض لینے پر مجبور ہوں، جتنی استطاعت اور حیثیت ہو، اس کے مطابق دعوت کرلیں۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200505

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں