بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

مالک مکان کا اجازت کے بغیر کرایہ دار کے گھر میں داخل ہونا


سوال

میں ایک ملازمت پیشہ شخص ہوں۔ میں، میری بیوں اور دو بیٹیاں(12 سال اور 8 سال کی) ، کالونی میں کرائے کے مکان میں رہتے ہیں۔  مکان کا مالک ایک ریٹائر پولیس آفیسر ہے،  جس کی عمر اندازاً  70 سال یا اس سے زائد ہے، اس سے ہم نے دو ماہ پہلے مکان کرایہ پر لیا تھا۔  قریب ایک ماہ پہلے وہ اپنے نواسے اور نواسیوں کے ہم راہ دروازے پر آیا اور کہنے لگا کہ بچوں نے آپ کا گھر دیکھنا ہے۔  میں نے مروت میں اجازت دے دی،  مگر وہ بچوں کے ساتھ خود بھی گھر میں داخل ہو گیا،  لاونج، ڈرائینگ روم دیکھنے کے بعد بیڈ روم میں بھی چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد میری بیوی نے مجھ سے احتجاج کیا کہ تم نے اس ایک غیر مرد کو گھر میں کیوں داخل ہونے دیا۔  مگر میں نے تمام معاملے کو نظر انداز کر دیا۔ ایک روز پہلے میری غیر موجودگی میں پھر وہ ہمارے گھر آ گیا(اور گیراج میں داخل ہو گیا)۔  گیراج میں میری بیوی اور بیٹیاں بیٹھی ہوئی تھیں۔ ان سے کہنے لگا کہ میں نے باہر پودوں کو پانی لگانا ہے، میری بیوی بیمار تھی وہ فوری طور پر اٹھ کر اندر نہ جا سکی ، اس نے بارہا مرتبہ کہا کہ میرا خاوند گھر نہیں،  مگر اس کے باوجود مختلف چیزوں کے متعلق میری بیوی سے سوالات کرتا رہا۔ اور اس کو کہنے لگا کہ میں تمہیں پودے دکھانا چاہتا ہوں جو باہر میں لگوانا چاہتا ہوں۔  مگر میری بیوی نے یک سر انکار کردیا۔  اس کے بعد چلا گیا۔  میری بیوی نے مجھے فون کیا اور روتے ہوئے تمام قصہ سنایا۔ میں واپسی کے راستہ پر تھا، سیدھا اس کے گھر گیا اور دستک دی ۔ دروازے کے باہر اس کا تقریباً 35 سالہ بیٹا آیا ، میں نے جب اس کے بارے میں پوچھا تو کہنے لگا کہ وہ تو باہر ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ مہربانی کرکے اپنے والد صاحب کو سمجھائیں  کہ وہ میری غیر موجودگی میں اس طرح گھر میں داخل ہوئے ہیں۔ اس نے کہا کہ وہ آپ کے باپ کی عمر کا ہے۔ میں نے کہا : لیکن میری زوجہ اور بچپیوں کے لیے غیر محرم ہے۔ اور کسی بھی صورت میں میری غیر موجودگی میں اس کو اجازت نہیں ہے۔

سوال یہ ہے مذکورہ صورت میں 70 سالہ شخص کو اپنے کرایہ داروں کے گھر میں کسی مرد کی غیر موجودگی میں شریعت اجازت دیتی ہے جب کہ اس کو مکان کا کرایہ،  ایڈوانس کی ادائیگی معاہدے (کرایہ نامے ) کے مطابق بروقت ادا کی جارہی ہو ؟ اور میری بیوں اور میرے اس رویے سے اگر وہ مستقبل میں ہمیں پریشان کرے تو شریعت ہماری کیا راہ نمائی کرتی ہے؟ 

جواب

گھر میں داخل ہونے سے پہلے اجازت طلب کرنا ایک ایسا بلند ادب ہے جو گھروں کی رازداری کی حفاظت کرتا ہے اور ایسےمعاملات کی بھی جو کہ عظمت و عفت کے لیے ہیں جنہیں اہلِ خانہ با پردہ رکھنا چاہتے ہیں ۔ حتی کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے دوسروں کے ہاں (گھر ہو یا کمرہ) جانے سے پہلے اجازت لینے کو اس قدر اہمیت دی ہے اس سے متعلقہ مسائل کی جزئیات تک قرآنِ مجید میں ذکر فرمائی ہیں، جب کہ نماز اور دیگر بہت سے اہم احکام کی جزئیات بیان نہیں کی گئی، چناں چہ اجازت کے احکام بیان کرتے ہوئے حکم  دیا کہ اگراجازت لینے اور دروازہ بجانے یا کھٹکھٹانے کے باوجود کوئی جواب نہ ملے تو گھر سے بلاناراضی واپس لوٹ جاؤ ،  چناچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: 

{فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فِيْهَآ اَحَدًا فَلَا تَدْخُلُوْهَا حَتّٰى يُؤْذَنَ لَـكُمْ وَاِنْ قِيْلَ لَـكُمُ ارۡجِعُوْا فَارۡجِعُوْا‌ۚ هُوَ اَزْكٰى لَـكُمْ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِيْمٌ‏ }

ترجمہ: پھر اگر نہ پاؤ اس میں کسی کو تو اس میں نہ جاؤ جب تک کہ اجازت نہ ملے تم کو،  اور اگر تم کو جواب ملے کہ پھر جاؤ،  تو پھر جاؤ اس میں خوب ستھرائی ہے تمہارے  لیے اور اللہ جو تم کرتے ہو اس کو جانتا ہے۔

اس آیتِ  مبارکہ میں اس بات کی نشان دہی کی گئی ہے کہ بالفرض آنے والے کو واپس جانے کا کہاجائے تو واپس لوٹ جانا چاہیے، اس میں کسی قسم کا کوئی حرج و اثم نہیں ہے،  مثلاً: اگرگھر والے اندر موجود ہوں اورخود ہی یہ کہیں کہ آپ واپس لوٹ جائیں تو بغیر کسی ناراضی و غصہ کے واپس لوٹ جانا چاہیے، یہی نفوس کے لیے اطیب و ازکیٰ ہے۔  دل میں خود کو سمجھالینا چاہیے کہ کوئی عذر لاحق ہوگا، اور یہ بات جان لینی چاہیے کہ یہ گھر  کے رہائشی کا حق ہے جسے اللہ تعالیٰ نے برقرار رکھا اور اس کی مذمت نہیں فرمائی۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿ وَاِنْ قِيْلَ لَكُمُ ارْجِعُوْا فَارْجِعُوْا هُوَ اَزْكٰى لَكُمْ ﴾ [النور: 28]

ترجمہ: اور اگر تمہیں کہا جائے کہ لوٹ جاؤ تو لوٹ جایا کرو۔ یہ تمہارے  لیے زیاد ہ پاکیزہ طریقہ ہے۔

امام قرطبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: 

"["هُوَ اَزْكٰى لَكُمْ "]  سے مراد کہ اس (لوٹ جانے میں ) تمہارے  لیے بہتری ہے،  کہیں تنگ دلی سے اجازت ملے،  بہتر ہے کہ خوشی سے تمہیں اجازت دی جائے۔‘‘ (تفسير القرطبي :12/ 220)

اور دوسرے کی رہائش میں داخل ہونے سے پہلے اجازت لینا درحقیقت اسلام کے اس نظامِ عفت و پاک دامنی کا حصہ ہے جس کا بیان سورہ نور میں کیا گیا ہے، جن احکام پر عمل کی صورت میں دل و دماغ، نگاہیں اور زبانیں اور مکمل معاشرہ ہر طرح کی بے حیائی سے پاک ہوجاتاہے۔ قرآنِ مجید اور احادیثِ مبارکہ میں دوسرے کی رہائش میں داخلے سے پہلے اجازت لینے اور نگاہوں کو پست رکھنے کی اتنی اہمیت اور تعلیم ہے کہ ایک روایت میں ہے، ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ کیا میں اپنی والدہ (کے پاس جاؤں تو ان) سے بھی اجازت لوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں! اس نے عرض کیا: حضور وہ تو میرے ساتھ (میرے ہی) گھر میں رہتی ہیں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہاں! اجازت لو، اس آدمی نے عرض کیا: حضور میں تو ان کی خدمت میں ہوں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (پھر بھی) ان سے اجازت لے کر ان کے پاس جاؤ، کیا تم پسند کرتے ہو کہ تم انہیں بے پردگی کی حالت میں دیکھ لو؟ اس نے عرض کیا: نہیں! آپ ﷺ نے فرمایا: پس ان سے اجازت لیا کرو۔ (رواہ مالک مرسلاً، مشکاۃ المصابیح)

معارف القرآن میں مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

’’مسئلہ:  اگر کسی شخص نے کسی شخص سے استیذان کیا اور اس نے جواب میں کہہ دیا کہ اس وقت ملاقات نہیں ہو سکتی، لوٹ جائیے  تو اس سے برا نہ ماننا چاہیے؛ کیوں کہ ہر شخص کے حالات اور اس کے مقتضیات مختلف ہوتے ہیں، بعض وقت وہ مجبور ہوتا ہے، باہر نہیں آسکتا، نہ آپ کو اندر بلا سکتا ہے تو ایسی حالت میں اس کے عذر کو قبول کرنا چاہیے۔  آیتِ مذکورہ میں یہی ہدایت ہے {وَاِنْ قِيْلَ لَكُمُ ارْجِعُوْا فَارْجِعُوْا هُوَ اَزْكٰى لَكُمْ} یعنی جب آپ سے کہا جائے کہ اِس وقت لوٹ جائیں تو آپ کو خوش دلی سے لوٹ آنا چاہیے، اس سے برا ماننا یا وہیں جم کر بیٹھ جانا دونوں چیزیں درست نہیں، بعض حضراتِ سلف سے منقول ہے کہ وہ فرماتے تھے کہ میں عمر بھر اس تمنا میں رہا کہ کسی کے پاس جا کر استیذان کروں اور وہ مجھے یہ جواب دے کر لوٹ جاؤ تو میں اس حکمِ قرآن کی تعمیل کا ثواب حاصل کروں، مگر عجیب اتفاق ہے کہ مجھے کبھی یہ نعمت نصیب نہ ہوئی ۔

مسئلہ:  شریعت اسلام نے حسنِ معاشرت کے آداب سکھانے اور سب کو ایذا و تکلیف سے بچانے کا دو طرفہ معتدل نظام قائم فرمایا ہے،  اس آیت میں جس طرح آنے والے کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ اگر استیذان کرنے پر آپ کو اجازت نہ ملے اور کہا جائے کہ اس وقت لوٹ جاؤ تو کہنے والے کو معذور سمجھو اور خوش دلی کے ساتھ واپس لوٹ جاؤ،  برا نہ مانو،  اسی طرح ایک حدیث میں اس کا دوسرا رخ اس طرح آیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: ’’إن لزورك علیك حقًّا‘‘ یعنی جو شخص آپ سے ملاقات کے لیے آئے اس کا بھی آپ پر حق ہے،  یعنی اس کا یہ حق ہے کہ اس کو اپنے پاس بلاؤ یا باہر آ کر اس سے ملو، اس کا اِکرام کرو، بات سنو،  بلا کسی شدید مجبوری اور عذر کے ملاقات سے انکار نہ کرو۔

مسئلہ:  اگر کسی کے دروازے پر جا کر استیذان کیا اور اندر سے کوئی جواب نہ آیا تو سنت یہ ہے کہ دوبارہ پھر استیذان کرے اور پھر بھی جواب نہ آوے تو تیسری مرتبہ کرے۔ اگر تیسری مرتبہ بھی جواب نہ آوے تو اس کا حکم وہی ہے جو ’’ارجعوا‘‘ کا ہے۔ یعنی لوٹ جانا چاہیے؛ کیوں کہ تین مرتبہ کہنے سے تقریباً یہ تو متعین ہوجاتا ہے کہ آواز سن لی،  مگر یا تو وہ شخص ایسی حالت میں ہے کہ جواب نہیں دے سکتا، مثلاً نماز پڑھ رہا ہے یا بیت الخلا  میں ہے یا غسل کر رہا ہے،  اور یا پھر اس کو اس وقت ملنا منظور نہیں، دونوں حالتوں میں وہیں جمے رہنا اور مسلسل دستک وغیر دیتے رہنا بھی موجبِ ایذا ہے جس سے بچنا واجب ہے،  اور استیذان کا اصل مقصد ہی ایذا سے بچنا ہے۔

حضرت ابو موسیٰ اشعری سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: ’’إذا استاذن أحدکم ثلاثاً فلم یؤذن له فلیرجع‘‘  یعنی جب کوئی آدمی تین مرتبہ استیذان کرے اور کوئی جواب نہ آوے تو اس کو لوٹ جانا چاہیے۔ (ابن کثیر بحوالہ صحیح بخاری)

اور مسندِ احمد میں حضرت انس سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت سعد بن عبادہ کے مکان پر تشریف لے گئے اور سنت کے مطابق باہر سے استیذان کے لیے سلام کیا ’’السلام علیکم‘‘ حضرت سعد بن عبادہ نے سلام کا جواب تو دیا، مگر آہستہ کہ حضور نہ سنیں،  آپ نے دوبارہ، پھر سہ بارہ سلام کیا۔ حضرت سعد سنتے اور آہستہ جواب دیتے رہے،  تین مرتبہ ایسا کرنے کے بعد آپ ﷺ لوٹ گئے،  جب سعد نے دیکھا کہ اب آواز نہیں آ رہی تو گھر سے نکل کر پیچھے دوڑے اور یہ عذر پیش کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ میں نے ہر مرتبہ آپ کی آواز سنی اور جواب بھی دیا، مگر آہستہ دیا؛  تاکہ زبانِ مبارک سے زیادہ سے زیادہ سلام کے الفاظ میرے بارے میں نکلیں، وہ میرے لیے موجبِ برکت ہوگا، (آپ نے ان کو طریقہ سنت بتلا دیا کہ تین مرتبہ جواب نہ آنے پر لوٹ جانا چاہیے) اس کے بعد حضرت سعد آں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے گھر ساتھ لے گئے، انہوں نے کچھ مہمانی کی آپ ﷺ نے اس کو قبول فرمایا۔

حضرت سعد کا یہ عمل غلبہ عشق و محبت کا اثر تھا کہ اس وقت ذہن اس طرف نہ گیا کہ سردارِ دو عالم ﷺ دروازے پر تشریف فرما ہیں،  مجھے فوراً جا کر ان کے قدم چوم لینے چاہییں، بلکہ ذہن اس طرف متوجہ ہوگیا کہ آپ کی زبانِ مبارک سے ’’السلام علیکم‘‘ جتنی مرتبہ زیادہ نکلے گا، میرے لیے زیادہ مفید ہوگا۔ 

بہرحال اس سے یہ مسئلہ ثابت ہوگیا کہ تین مرتبہ استیذان کے بعد جواب نہ آوے تو سنت یہ ہے کہ لوٹ جائے،  وہیں جم کر بیٹھ جانا خلافِ سنت اور مخاطب کے  لیے موجبِ ایذا ہے کہ اس کو دباؤ ڈال کر نکلنے پر مجبور کرنا ہے۔

مسئلہ:  یہ حکم اس وقت ہے جب کہ سلام یا دستک وغیرہ کے ذریعہ اجازت حاصل کرنے کی کوشش تین متربہ کرلی ہو کہ اب وہاں جم کر بیٹھ جانا موجبِ ایذا ہے،  لیکن اگر کوئی کسی عالم یا بزرگ کے دروازہ پر بغیر استیذان کیے ہوئے اور بغیر ان کو اطلاع دیے ہوئے انتظار میں بیٹھ رہے کہ جب اپنی فرصت کے مطابق باہر تشریف لاویں گے تو ملاقات ہوجائے گی، یہ اس میں داخل نہیں، بلکہ عینِ ادب ہے، خود قرآنِ کریم نے لوگوں کو یہ ہدایت دی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب گھر میں ہوں تو ان کو آواز دے کر بلانا ادب کے خلاف ہے، بلکہ لوگوں کو چاہیے کہ انتظار کریں، جس وقت آپ ﷺ اپنی ضرورت کے مطابق باہر تشریف لاویں اس وقت ملاقات کریں۔  آیت یہ ہے {وَلَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُجَ اِلَيْهِمْ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ } اور حضرت ابن عباس فرماتے ہیں:  میں بعض اوقات کسی انصاری صحابی کے دروازہ پر پوری دوپہر انتظار کرتا رہتا ہوں کہ جب وہ باہر تشریف لاویں تو ان سے کسی حد  کی تحقیق کروں، اور اگر میں ان سے ملنے کے  لیے اجازت مانگتا تو وہ ضرور مجھے اجازت دے دیتے، مگر میں اس کو خلافِ ادب سمجھتا تھا؛  اس لیے انتظار کی مشقت گوارا کرتا تھا۔ (صحیح بخاری)‘‘. ( معارف القرآن، سورۃ النور  آیت : 28)

رسول اللہ ﷺ نے بلا اجازت گھر میں داخل ہونا توکجا گھر کے اندر جھانکنے سے متعلق  بھی  سخت  الفاظ میں منع  فرمایا  ہے،  حضرت  ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  سے روایت کرتے ہیں :

’’مَنِ اطَّلَعَ فِي بَيْتِ قَوْمٍ مِنْ غَيْرِ إِذْنِهِمْ حَلَّ لَهُمْ أَنْ يَفْقَئُوا عَيْنَهُ". (الصحیح لمسلم، کتاب الآداب، باب تحریم النظر في بیت غیره)

ترجمہ: جو شخص کسی کے گھر میں جھانک رہا ہو تو گھر والوں کے لیے حلال ہے کہ وہ اس کی آنکھ پھوڑ دیں‘‘۔

حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ایک شخص آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے حجرے میں جھانک رہا تھا اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ہاتھ میں کنگھا تھا جس سے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کنگھی فرما رہے تھے، اس شخص کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے۔ فرما یا:’’ اگر میں یہ جان لیتا کہ تم اس طرح جھانک رہے ہو تو میں یہ کنگھا تمہاری آنکھ میں مار دیتا، اجازت طلب کرنے کا سبب یہی نظرہے‘‘۔ ( صحيح البخاري :کتاب الاستئذان، باب من اطلع في بیت قوم)

ایک اور روایت میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ’’ اگر کوئی شخص تمہارے گھر میں بغیر اجازت کے جھانک رہا ہو اور تم نے اس کی آنکھ پتھر سے پھوڑدی تو تم پرکوئی حرج (گناہ ) نہیں‘‘ ۔

امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَنَّهُ قَالَ: مَنْ مَلَأَ عَيْنَيْهِ مِنْ قَاعَةِ بَيْتٍ فَقَدْ فَسَقَ‘‘. (تفسير القرطبي :12/ 220)

ترجمہ: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: ’’جس شخص نے اپنی آنکھ کسی گھر کی جھانک تانک سے بھر لی پس وہ فاسق ہوگیا‘‘۔ 

لہذا بغیر اجازت گھر میں داخل ہونے والا شخص فاسق و فاجر ہے،  اسے حسنِ اخلاق، اور حکمت سے سمجھائیں اور قرآن و حدیث کے یہ احکام بتلائیں،  اگر پھر بھی باز نہ آئے تو آپ قانونی چارہ جوئی کا حق رکھتے ہیں۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012201799

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں