زید ایک پرائیویٹ یونیورسٹی میں جہاں مخلوط تعلیمی نظام ہے پڑھاتا ہے اور ایک مسجد میں امامت بھی کرتا ہے ،اسے یہ بات بتائی گئی کہ فتویٰ کی رو سے ایسے تعلیم دینا جائز نہیں، مگر وہ نہیں مانتا، تو کیا ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھنا درست ہوگا جو جان بوجھ کر کھلم کھلا فتوے کی مخالفت کرتا ہو؟
اگر بالغ بچیوں کی یہ تعلیم پردہ کے اہتمام کے بغیر مخلوط ماحول میں دی جاتی ہو تو ایسی جگہ میں تعلیم دینا جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ اس میں نامحرم عورتوں سے میل جول رکھنے کی نوبت آتی ہے، لہٰذا ایسا امام جو مخلوط تعلیمی نظام والے ادارے میں پڑھاتا ہو اس کو امام بنانا اور اس کی اقتدا میں نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے، البتہ اگر کسی متقی پرہیز گار امام کی اقتدا میں جماعت نہ مل سکتی ہو تو تنہا نماز نہ ادا کی جائے، بلکہ اس کی اقتدا میں ہی پڑھ لی جائے، اس کی اقتدا میں ادا کی جانے والی نماز گو کراہت کے ساتھ ادا ہو گی، لیکن جماعت کا ثواب حاصل ہوجائے گا، البتہ ایک متقی ، پرہیز گار امام کے پیچھے نماز پڑھنے سے جتنا ثواب ملتا ہے اتنا نہیں ملے گا۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 559):
"(ويكره إمامة عبد) ... (وفاسق).
(قوله: وفاسق) من الفسق: وهو الخروج عن الاستقامة، ولعل المراد به من يرتكب الكبائر كشارب الخمر، والزاني وآكل الربا ونحو ذلك، كذا في البرجندي إسماعيل".
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 562):
"وفي النهر عن المحيط: صلى خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعة.
(قوله: نال فضل الجماعة) أفاد أن الصلاة خلفهما أولى من الانفراد، لكن لا ينال كما ينال خلف تقي ورع؛ لحديث: «من صلى خلف عالم تقي فكأنما صلى خلف نبي». قال في الحلية: ولم يجده المخرجون، نعم أخرج الحاكم في مستدركه مرفوعاً: «إن سركم أن يقبل الله صلاتكم فليؤمكم خياركم، فإنهم وفدكم فيما بينكم وبين ربكم»". فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 143909201194
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن