مرد اور عورت کی نماز میں فرق کیا ہے؟ ایک عورت مردوں کی طرح نماز پڑھتی ہے اور حدیث کا حوالہ دیتی ہے کہ وہ ضعیف ہے؟
حضراتِ فقہاء رحمھم اللہ نے احادیثِ شریفہ اور آثار ِصحابہ وغیرہ کوسامنے رکھ کر عورت اورمرد کی نماز کی کیفیت میں جو فرق بیان کیے ہیں ان کا خلاصہ درج ذیل ہے:
(۱) عورت تکبیر تحریمہ میں صرف کندھوں اور سینوں تک ہاتھ اٹھائے گی، جب کہ مرد کو کانوں کی لو تک ہاتھ اُٹھانے کا حکم ہے۔
(۲) عور ت دوپٹہ اور چادر کے اندر سے ہاتھ اٹھائے گی، جب کہ مرد کے لیے ہاتھ کو باہر نکال کر رفع یدین کرنے کاحکم ہے۔
(۳) عورت اپنے سینے پر ہاتھ رکھے گی، جب کہ مرد کے لیے ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کا حکم ہے۔
(۴) عورت رکوع میں معمولی سا جھکے گی، جب کہ مرد کے لیے اچھی طرح سے جھکنے کا حکم ہے۔
(5) عورت گھٹنوں پر ہاتھ رکھتے وقت انگلیاں ملائے رکھے گی، جب کہ مرد کے لیے اس وقت انگلیاں کھولنے کا حکم ہے۔
(6) عورت رکوع میں گھٹنوں پر صرف ہاتھ رکھے گی، جب کہ مرد کے لیے گھٹنوں کو پکڑنے کا حکم ہے۔
(7) عورت رکوع میں گھٹنوں کو ذرا خم دے گی، جب کہ مرد کے لیے گھٹنوں کو خم دینا منع ہے۔
(8) عورت کے لیے قیام ورکوع میں اپنے دونوں ٹخنوں کو ملانا بہتر ہے۔ جب کہ مرد کے لیے دونوں ٹخنوں کے درمیان چار انگل کے بقدر فاصلہ رکھنا افضل ہے۔
(9) عورت رکوع اور سجدے میں سمٹ کر رہے گی، جب کہ مرد کے لیے ہر عضو کو الگ الگ رکھنے کا حکم ہے۔
(10) عورت کے لیے سجدہ میں دونوں قدم کھڑے کرنے کا حکم نہیں ہے؛ بلکہ وہ بیٹھے بیٹھے زمین سے چمٹ کر سجدہ کرے گی، جب کہ مرد کے لیے دونوں پیروں کو کھڑا کر کے انگلیوں کو قبلہ رخ کرنے کا حکم ہے۔
(۱1) عورت سجدے میں اپنی کہنیوں کو بچھا کر رکھے گی، جب کہ مرد کے لیے کہنیوں کو اٹھا کر رکھنے کا حکم ہے۔
(۱2) عورت تشہد میں ’’تورّک‘‘ کرے گی یعنی دونوں پیر دائیں جانب نکال کر بیٹھے گی،جب کہ مرد کے لیے دایاں پیر کھڑا کر کے بائیں پیر پر بیٹھنا مسنون ہے۔
(۱3) عورت تشہد کے وقت اپنی انگلیاں ملاکر رکھے گی، جب کہ مرد کے لیے انگلیاں اپنے حال پر رکھنے کا حکم ہے۔
(۱4) اگر جماعت میں کوئی بات پیش آئے توعورت الٹے ہاتھ سے تالی بجاکر متوجہ کرے گی، جب کہ مرد کے لیے ایسی صورت میں بآواز بلند تسبیح وتکبیر کاحکم ہے۔
عورت کانماز کے مسائل میں ستر کازیادہ اہتمام کرنا اور سمٹ کر نماز ادا کرنا صرف مسلک دیوبند یا صرف مذہب حنفی کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ تمام اہل سنت والجماعت اور ائمہ اربعہ کا متفقہ مسئلہ ہے ،حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے پوچھا گیا کہ آنحضرت ﷺ کے زمانے میں عورتیں کس طرح نماز پڑھتی تھیں؟ فرمایا: پہلے چوکڑی مارکر بیٹھتی تھیں ،پھر انہیں حکم دیا گیا کہ خوب سمٹ کر نماز پڑھا کریں ۔ (جامع مسانید الإمام الأعظم أبي حنیفة، الباب الخامس في الصلوۃ - ۱؍۴۰۰)
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ ہی سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺنے فرمایاکہ جب عورت نماز میں ایک ران دوسری پر ملاکر بیٹھتی ہے اور سجدہ کرتے وقت اپنے پیٹ کو اپنی رانوں سے ملالیتی ہے (یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت کے ساتھ ساتھ) اپنے پردے کابھی خوب اہتمام کرتی ہے تو اللہ تعالی اس کو دیکھ کر فرماتے ہیں اے فرشتوں گواہ رہو کہ میں نے اس عورت کو بخش دیا۔ (السنن الکبری لأبي بکر ابن أحمد البیھقي)
رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے دوعورتوں کو نماز پڑھتے دیکھ کرفرمایا: جب سجدہ کرو تو اپنے جسم کے بعض حصوں کو بعض سے ملا کر زمین کے ساتھ چمٹادو ، بے شک عورت اس میں مرد کی مانند نہیں ہے ۔ (مراسیل أبي داؤد ،ص8)
حضرت وائل بن حجر ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نماز کاطریقہ سکھایا تو فرمایا کہ اے حجر جب تم نماز شروع کرو تو اپنے ہاتھ کا نوں تک اٹھائو اورعورت کو بتادینا کہ وہ اپنے ہاتھ چھاتیوں تک اٹھائے ۔ ( مجمع الزوائد لنور الدین علي بن أبي بکر - باب رفع الیدین في الصلوۃ -۲؍۱۰۳)
حضرت مولانا عبد الحئی لکھنویؒ فرماتے ہیں کہ تمام اہل سنت والجماعت کا اتفاق ہے کہ عورتوں کے لیے سنت یہی ہے کہ سینے پر ہاتھ باندھیں ۔ ( السعایة في کشف ما في شرح الوقایة، للشیخ عبدالحي اللکنوي، کتاب الصلوٰۃ، باب صفة الصلوٰة …۲؍۱۵۶-سھیل اکیڈمی لاہور)
پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدسہ ومطہرہ بیویوں یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک باز بیٹیوں یا عشرہ مبشرہ میں سے کسی ایک صحابی کی بیوی ،بیٹی یا کسی اور رشتہ دارعورت سے ہرگز ثابت نہیں کہ وہ احادیثِ مذکورہ کے خلاف مردوں کی طرح نماز پڑھتی ہوں، بلکہ پورے تیئس سالہ دورِ نبوت میں کسی ایک بھی صحیح سند سے کسی ایک بھی صحابیہ سے مردوں کی طرح نماز پڑھنا ثابت نہیں ،اس کے بعد دورِ خلافتِ راشدہ میں اور پورے دورِ صحابہ میں خلیفہ راشد حضرت علی کرم ؓ مدینہ منورہ اور کوفہ میں اور حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ مکہ مکرمہ میں عورتوں کو نماز کایہی طریقہ سکھاتے رہے کہ وہ خوب سمٹ کر اکٹھی ہوکر نماز پڑھیں۔ (دیکھئے امام بخاری ؒ کے استاد امام ابوبکر ابن ابی شیبہؒ کی حدیث کی مشہور کتاب ’’المصنف‘‘ المصنف لابن أبی شیبة، باب في المرأۃ کیف تکون في سجودها :۱؍۲۷۰-۲۷۱ ط: إدارۃ القرآن و العلوم الإسلامیة کراتشي)
پورے دورِصحابہ کے بعد تابعین اور تبع تابعین کازمانہ آتاہے ،اس زمانہ میں بھی مکہ مکرمہ میں حضرت مجاہد بصرہ میں ،اور کوفہ میں امام ابراہیم نخعیؒ برملا یہی فتوی دیتے رہے کہ عورت کانماز میں بیٹھنا اور سجدہ کرنا مرد کی طرح نہیں ہے ۔تابعین اورتبع تابعین کے زمانے میں ایک آواز بھی اس کے خلاف نہیں اٹھی اور حدیثِ پاک کی کسی بھی کتاب میں کسی تابعی یا تبع تابعین کا فتوی بھی ایسا نظرسے نہیں گزرا جس نے کسی عورت کو مجبور کیا ہو کہ وہ مردوں کی طرح نماز پڑھے ،یہی وہ زمانہ ہے جس میں چاروں اماموں نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے طریقوں کو فقہ اسلامی کی شکل میں مرتب اور مدون فرمایا ۔
الغرض عورتوں کی نماز کا یہ طریقہ رسولِ اقدس ﷺکے مبارک زمانہ سے لے کر آج تک امت میں متفق علیہ اور عملاًمتواتر ہے اور جوعمل متواتر ہو ،اس میں کسی خاص حدیث کی سند کی بحث نہیں رہتی؛ کیوں کہ تواتر خود قوی ترین دلیل ہے۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 143908200949
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن