کیا مردوں سے استغاثہ کرنے والے مشرک امام کی اقتدا میں نماز پڑھی جا سکتی ہے؟
اگر واقعۃً کوئی امام مردوں سے اس عقیدے سے مدد مانگتا ہے کہ ان میں ذاتی طور پر قدرت و طاقت ہے کہ وہ جو چاہیں کر سکتےہیں، یا ان کو خدا نے تمام اختیار دے دیے ہیں اور وہ جو چاہیں کرسکتے ہیں، ہر قسم کی مرادیں ہر جگہ سے ان سے مانگی جاسکتی ہیں تو یہ عمل شرک ہے جو ناجائز اور حرام ہے، ایسے امام کے پیچھے نماز ادا کرنا جائز نہیں ہوگا۔
البتہ اگر کسی شخص کے عقیدے کے بارے میں یقینی طور پر معلوم نہ ہو یا بلا احتمال قطعی طور پر ثابت نہ ہو کہ اس کا شرکیہ عقیدہ ہے تو اسے مشرک کہنا درست نہیں ہے، گو وہ گم راہ اور شدید گناہ گارہو۔ یہی وجہ ہے کہ اکابرِ دیوبند نے مبتدعین کے بعض مشتبہ عقائد کے باوجود ان کے شرک و کفر کا فتویٰ نہیں دیا ہے، اس لیے کہ اہلِ بدعت تاویل کے سہارے یہ نظریات رکھتے ہیں۔
"إن الناس قد أکثروا من دعاء غیر الله تعالی من الأولیاء الأحیاء منهم والأموات وغیرهم مثل: یا سیدي فلان أغثني ولیس ذلک من التوسل المباح في شيء ․․․ وقد عده أناس من العلماء شرکًا"․ (روح المعاني: ۲/۱۲۸) فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144010200444
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن