میں نے ایک لاکھ روپے مضاربت پر دیے ہیں، اب سال پورا ہوا اس کا کوئی نفع یا نقصان کی معلومات نہیں تو اس میں زکاۃ ہوگی یا نہیں؟ اگر ہے تو طریقۂ کار بتائیں!
مضاربت کے طور پر دی جانے والی رقم کی زکاۃ مالک کے ذمہ لازم ہے،اور اگر مضاربت میں نفع ہو تو مال کے مالک پر اپنے سرمایہ اور نفع دونوں کی ڈھائی فیصد زکاۃ ادا کرنا لازم ہوگا اور مضارب پر نفع میں سے اپنے حصے کی ڈھائی فیصد زکاۃ لازم ہوگی،لہذا مضارب نے اگر آپ کی رقم سے کوئی کام نہیں کیا تو آپ پر اپنے دیگر قابلِ اموال زکاۃ کی ادائیگی کے ساتھ اس ایک لاکھ روپے کی زکاۃ بھی لازم ہوگی، ورنہ مضارب سے سرمایہ اور نفع کی تفصیل معلوم کرکے زکاۃ کا حساب کرلیجیے۔
العناية شرح الهداية (2 / 231):
"وكان أبو حنيفة يقول أولاً: يعشرها لقوة حق المضارب حتى لايملك رب المال نهيه عن التصرف فيه بعد ما صار عروضاً فنزل منزلة المالك، ثم رجع إلى ما ذكرنا في الكتاب وهو قولهما؛ لأنه ليس بمالك ولا نائب عنه في أداء الزكاة إلا أن يكون في المال ربح يبلغ نصيبه نصاباً فيؤخذ منه؛ لأنه مالك له.
(وقوله:لأنه غير مأذون بأداء زكاته) يعني هو مأذون بالتجارة فقط، فلو أخذ أخذ غير زكاة وليس له أخذ شيء سوى الزكاة. وقوله (ولا نائب عنه) أي إنما هو نائب في التجارة لا غير، والنائب تقتصر ولايته على ما فوض إليه فكان بمنزلة المستبضع". فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144106200971
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن