اخبار میں لکھاہواتھاکہ ہر پاکستانی ایک لاکھ پندرہ ہزار مقروض ہے، ایک صاحب نے کہا کہ اتنے پیسے ہوں کہ قرض(ایک لاکھ پندرہ ہزرا) کے بغیر انسان حج کرسکے زاد راحلہ گھر کا نفقہ کے ساتھ پھر حج فرض ہوگایعنی مقروض قرض کو منہا کرے گا، پھر باقی ماندہ پیسوں سے حج کرے گا کیا اسی طرح ہے ؟
صورتِ مسئولہ میں حکم رانوں کی جانب سے قرضہ لینے کی وجہ سے رعایا کے ہر فرد کے مقروض ہونے کا جو حساب لگایا گیا ہے، اس کی وجہ سے زکاۃ اور حج کی فرضیت کے لیے حساب کردہ رقم کے علاوہ رقم کا ہونا شرط نہیں۔ اس مسئلے سے متعلق جامعہ سے تفصیلی فتویٰ جاری ہوچکا ہے، درج ذیل لنک پر جاری شدہ فتوی سے استفادہ کیا جا سکتا ہے:
https://www.banuri.edu.pk/readquestion/حکمران-کے-قرضہ-لینے-کی-وجہ-سے-رعایا-میں-سے-ہر-ایک-کا-مقروض-ہوجانا-وجوب-زکوة-سے-مانع-ہونے-کا-سبب-شمار-ہوگا/20-06-2019
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144105200777
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن