میری ساس صاحبہ کا انتقال ہوگیا، ان کی اولاد اپنی والدہ کے قضا روزوں کا فدیہ دینا چاہتے ہیں، والدہ کے بالغ ہونے سے وفات تک سارے روزوں کا اندازا لگایا ہے، اب سوال یہ ہے کہ فدیہ موجودہ وقت کی قیمت کے حساب سے دیا جائے یا گزشتہ ادوار کی قیمت کے حساب سے؟
اگر مرحومہ کے ذمے روزے قضا نہیں تھے تو ورثہ کی جتنی حیثیت ہو مرحومہ کے ایصالِ ثواب کی نیت سے کچھ بھی صدقہ کردیں۔ البتہ اگر روزے قضا تھے اور انہوں نے فدیے کی وصیت نہیں کی تھی، یا روزے قضا نہ ہونے کے باوجود ورثہ از خود تمام روزوں کا فدیہ دینا چاہتے ہیں تو یہ ان کی طرف سے تبرع و احسان ہے، بہر حال فدیہ کی ادائیگی میں موجودہ قیمت کا اعتبار کیا جائے گا۔
"الهندیة" : وتعتبر القیمة یوم الوجوب، وقالا: یوم الأداء، وفي السوائم یوم الأداء إجماعاً وهو الأصح ، ویقوم في البلد الذي المال فیه ولو في مفازة".
(۲/۲۱۱، الفتاوی الهندیة :۱/۱۸۰) فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144008201354
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن