بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیٹے کے لیے والد سے الگ رہ کر جائیداد بنانے کا حکم اور والد کے ہوتے ہوئے اس کی جائیداد تقسیم کرنا


سوال

 ایک آدمی کے تین بیٹے ہیں اور ایک گھر ہے 3 منزلہ، اپنا کاروبار تھا گھر کا، جب گھر صرف ایک منزلہ تھا ، اس وقت سب سے بڑا بیٹا گھر سے نکل گیا تھا، کہیں باہر ملک چلا گیا اور وہاں رہائش پذیر ہو گیا، اس عرصے میں اس نے گھر میں کبھی پیسہ نہیں بھیجا اور یہی رونا رویا کہ کام نہیں ہے، پیسہ نہیں ہے،  پھر اس نے خود ہی شادی بھی کرلی اور الگ گھر میں کرائے پر رہنے لگا۔ باقی جو دو بیٹے تھے، انہوں نے گھر کے کاروبار میں باپ کے ساتھ کام کیا اور سارا پیسہ باپ کے ہاتھ میں ہوتا تھا، پھر ان پیسوں سے باپ نے مزید دو منزلہ گھر تعمیر کر لیا۔ دوسری طرف سب سے بڑے بیٹے نے اپنی شادی کے کچھ عرصے بعد ہی  2 گھر تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد خرید لیے،جو اس نے بیرون ملک میں کماکر گھر والوں سے چھپاکر بینک میں رکھے تھے۔اب مسئلہ یہ پوچھنا ہے کہ:

1۔ اُس بڑے بیٹے کا ترکہ میں کیا حصہ بنتا ہے؟

2۔ کیا جس وقت وہ گھر سے نکلا ایک منزلہ گھر چھوڑ کراُس میں سے حصہ نکالا جائے گا اس بیٹے کا یا اب جو موجودہ تین منزلہ گھر بن چکا ہے اس کی کُل مالیت کا حساب لگا کر نکالا جائے گا؟

3۔ بڑے بیٹے نے تو چالاکی کی اور اپنا پیسہ الگ چھپا کر رکھا اور پھر اس سے دو گھر بنا لیے، جب کہ چھوٹے دو بھائیوں نے اس طرح کی کوئی چالاکی نہ کی اور باپ کے ساتھ رہے آخر تک اور گھر میں ہی کام کرتے رہے، سب پیسہ باپ کے ہاتھ میں ہی جاتا تھا اور انہیں کے پیسوں سے بقیہ دو منزلیں تعمیر ہوئیں گھر کی تو اب اس صورت میں ترکہ کی تقسیم کا کیا حساب بنے گا؟

4۔ واضح رہے کہ باپ ابھی زندہ ہے، مگر دماغی لحاظ سے بہت کمزور ہوگئے ہیں، اسی لیے ماں چاہتی ہے کہ شوہر کی زندگی میں ہی جس کا جو حصہ بنتا ہے وہ دے دیا جائے،کیوں کہ ماں کو اپنے بڑے بیٹے اور بہو کی طرف سے خدشات لاحق ہیں، دونوں بہت شر انگیز قسم کے لوگ ہیں ، اس لیے ماں اپنے شوہر کی زندگی میں ہی اس مسئلہ کو حل کر دینا چاہتی ہے۔ کیا اس طرح کرنا ٹھیک ہوگا؟

جواب

1 و 2۔ صورتِ مسئولہ میں سائل کا والد اپنی  زندگی میں اپنی جائیداد کا مالک ہے، اس میں والد کی بیوی، بیٹوں یا بیٹیوں کا حصہ نہیں،البتہ اگر سائل کا والد اپنی  زندگی میں جائیداد  تقسیم کرنا چاہے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ والد اپنی ضروریات کے لیے کچھ جائیداد اپنے پاس رکھ لے ، بہتر یہ ہے کہ بیوی کو آٹھواں حصہ دے، اس کے بعد باقی جائیداد اپنی تمام اولاد میں برابر تقسیم کرے، یعنی بیٹیوں اور بیٹوں کو برابر دے، کسی شرعی وجہ کے بغیر اولاد کے درمیان کمی بیشی نہ کرے، تاہم اگر کسی بیٹے یا بیٹی کو اس کی خدمت، دین داری یا ضرورت کی وجہ سے زیادہ دینا چاہے تو ان کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ دے سکتا ہے، لیکن کسی بھی اولاد کو اپنی جائیداد سے بالکل محروم کردینا جائز نہیں۔

3۔ چھوٹے بھائیوں نے باپ کے ساتھ مل کر جو جائیداد میں اضافہ کیا اس تمام کی ملکیت باپ ہی کی ہے، وہ اپنی زندگی میں اس کو مذکورہ طریقے پر تقسیم کرسکتا ہے، اسے اس بات کی اجازت ہے کہ وہ چھوٹوں کو بڑوں کی بہ نسبت زیادہ دے،لیکن اگر والد زندگی میں تقسیم نہیں کرتا اور  والد کا انتقال ہوجائے تو اس میں دیگر ورثاء کے ساتھ بڑے بھائی کا بھی حصہ ہوگا، اس لیے کہ وہ بھی بیٹا ہے اور وارث ہے، لیکن بڑے بھائی نے اپنی ذاتی آمدن سے جو گھر خریدے ہیں وہ اس کی ذاتی ملکیت ہے، اس میں والد، والدہ، بھائیوں یا بہنوں کا حصہ نہیں ہے۔

4۔اگر والد کی ذہنی اور جسمانی حالت درست ہےاور وہ برضاوخوشی اپنی جائیداد تقسیم کرے تو درست ہے، لیکن اگر عقلی قوت بچوں کی طرح کمزور ہوگئی ہےتو ان کے مال کو تقسیم کرنا کسی کے لیے بھی جائز نہیں ہے۔فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200455

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں