بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1446ھ 21 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

میسج پر آنے والی قرآنی آیات اور احادیث کو ڈیلیٹ کرنا


سوال

میسج یا واٹس ایپ پر آنے والی قرآنی آیات یا احادیث کو ڈیلیٹ کر سکتے ہیں یا نہیں؟

جواب

میسج میں قرآنِ  کریم، احادیثِ مبارکہ، اور اسلامی کلمات موصول ہوں تو ان کو پڑھنے کے بعد  یا ان سے نصیحت حاصل کرنے کے بعد  اگر ان کومٹانے (ڈیلیٹ) کرنے کی ضرورت درپیش ہو  تو اس کو مٹانے  میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے،  اس لیے کہ فقہاءِ کرام نے  ضرورت کی صورت میں  کاغذ پر  سے قرآنی آیات اور احادیث  کو مٹانے کی اجازت دی ہے، لہذا اس طرح کے  پیغامات  کو  ڈیلیٹ  کرنے کی  بطریقِ اولیٰ گنجائش ہے۔

  واضح رہے  کہ  دین کی نشرو اشاعت،  تذکیر اور نصیحت  کی غرض سے آیاتِ قرانیہ، احادیثِ مبارکہ، اور دینی پیغام بھیجنا فی نفسہ جائز ہے، تاہم اس میں دو باتوں کا خیال رکھنا  نہایت ضروری ہے:

(۱) مذکورہ پیغامات معتبر اور مستند ہوں، کیوں کہ آج کل دین کے نام پر لاشعوری طور پر لوگ غلط باتیں بھی پھیلاتے رہتے ہیں، اس لیے تحقیق اور تسلی کے بغیر مذکورہ  پیغامات نہ بھیجے جائیں، خاص کر جب وہ قرآنِ مجید  یا حدیثِ مبارک  کی طرف منسوب ہوں۔

(۲)  قرآنِ مجید  کی آیات کو اس کے   عربی رسم الخط  (رسمِ عثمانی ) میں لکھاجائَے، اس لیے کہ قرآنِ کریم کی کتابت میں  رسمِ عثمانی (جوکہ عام قرآن کا رسم الخط ہے) کی اتباع واجب ہے، لہذا کسی اور رسم الخط میں قرآنی آیت لکھ کر  پیغام بھیجنا جائز نہیں ہے، البتہ ترجمہ لکھ کر بھیجا جاسکتا ہے۔

نیز   اس  طرح  کے  پیغامات  اگر صحیح اور مستند ہوں تو  بہتر یہ ہے کہ انہیں پڑھنے سے پہلے ختم نہ کیا جائے، اس لیے کہ اس میں صورۃً  اعراض پایا جاتا ہے، لہذا بلاعذر پڑھنے سے پہلے ختم (ڈیلیٹ) نہیں کرنا چاہیے۔

    فتاوی شامی میں ہے:

"الكتب التي لاينتفع بها يمحى عنها اسم الله وملائكته ورسله ويحرق الباقي".  (6 / 422، کتاب الحظر والاباحۃ، ط: سعید)

      فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ولو محا لوحاً كتب فيه القرآن واستعمله في أمر الدنيا يجوز".  (5 / 322، الباب الخامس في آداب المسجد والقبلة والمصحف وما كتب فيه شيء من القرآن،ط: رشیدیہ) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144103200590

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں