بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز موقوف کرکے تعلیم میں شرکت کی دعوت


سوال

میرا تعلق جزوی طور پر دعوت و تبیغ سے ہے، اگرچہ میرا وقت نہیں لگا، لیکن میں روزانہ کی بنیاد پر مقامی اعمال میں بھرپور شرکت کرتا ہوں؛ کیوں کہ دعوت و تبلیغ ہم جیسے دنیاداروں کے لیے خود احتسابی اور دین سیکھنے کا آسان اور بھرپور ذریعہ ہے، آپ کے علم میں ہوگا کہ ایک عمل عشاء کی نماز کے بعد تعلیم کا ہوتا ہے جو کہ فضائلِ اعمال سے کیا جاتا ہے. ہمارے ایک ساتھی تعلیم کے متعلق یہ کہتے ہیں کہ تمام ساتھی اپنی بقیہ نماز موقوف کرکے یعنی عشاء کے فرائض کے بعد فوری طور پر تعلیم میں شرکت کریں؛ کیوں کہ وہ یعنی نماز قطرہ ہے اور یہ یعنی تعلیم سمندر ہے۔

اب میراپہلا سوال یہ ہے کہ یہ تعلیم کا عمل علماءِ کرام کا اجتہاد ہے جو کہ غالباً 1928ء میں شروع کیا گیا، اس نماز سے بڑھ کر کیسے ہو سکتا جو کہ اللہ کا حکم ہے؟  اس سلسلے میں ہماری راہ نمائی فرمائیں کہ اس طرح کہنا غلو نہیں ہے؟

میرا دوسرا سوال یہ ہے اس طرح کے سوال کرنے کو کیا یہ کہنا درست ہے کہ یہ سارے سوال کرنا اشکالات پیدا کرتا ہے؟  یہ صرف وہم ہے اور وہم کا علاج حکیم لقمان کے پاس نہیں تھا۔ میرا سوال کرنے کا مقصد کسی کی حوصلہ شکنی نہیں ہے، مقصد صرف یہ ہے کہ دین کے بارے میں علماءِ  کرام سے راہ نمائی لی جائے اور دین پر صحیح نہج پر عمل کیا جا سکے !

جواب

کسی تبلیغی ساتھی کا سنتِ مؤکدہ اور وتر موقوف کر کے تعلیم میں شرکت کی دعوت دینا،اور تعلیم کو سنت، وتر یا فرض نماز سے افضل گرداننا لاعلمی کی بنیاد پر ہے، یہ عمل درست نہیں   تبلیغی جماعت کی تعلیم کے بارے میں خود تبلیغی جماعت کے اکابرین کی تعلیم یہ ہے کہ  یہ تعلیم ایسی جگہ پر ہو اور اتنی آواز میں ہو کہ کسی نمازی کی نماز میں خلل نہ آئے، نیز تعلیم کرانے والا ساتھی بھی فرض کے بعد سنتیں ادا کرکے تعلیم کرائے، گو وتر کی نماز رات سونے تک یا تہجد کے وقت تک مؤخر کی جاسکتی ہے، اور رمضان المبارک کے علاوہ نمازِ وتر میں بہتر ہے کہ وہ رات کی آخری نماز ہو۔

بہرحال تعلیم میں نمازیوں کی مکمل رعایت رکھی جائے ،اس لیے ایسے ساتھی کو پیار محبت سے تبلیغی اصول سے آگاہ کیاجائے؛ تاکہ وہ اپنی اصلاح کرے اور کسی کو شکایت کا موقع نہ ملے۔

انفرادی نفلی اعمال میں مشغول شخص کو بھی تعلیم میں شرکت پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم ترغیباً اگر کوئی یہ کہتاہے کہ انفرادی نفلی عمل کے مقابلے میں امت کی فکر یا اجتماعی اصلاحی عمل زیادہ بہتر ہے اور یہ بات تعلیم میں پائی جاتی ہے تو اس کی بات درست ہے، رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف لائے تو دو حلقے لگے ہوئے تھے، ایک ذکر کا اور دوسرا تعلیمِ دین کا، آپ ﷺ نے دونوں کی تصویب فرمائی، اور دینی تعلیم کے حلقے میں تشریف فرماہوئے اور فرمایا: مجھے معلم بناکر بھیجا گیا ہے۔ معلوم ہوا کہ اگر کوئی انفرادی نیک عمل (ذکر، نفلی نماز وغیرہ) میں مشغول ہو تو وہ بھی خیر کے کام میں مصروف ہے، اسے نوافل چھوڑ کر تعلیم میں شرکت پر مجبور نہیں کیا جاسکتا، نہ ہی اسے معیوب یا کم تر سمجھا جائے، تاہم اگر امت کی اصلاح اور اجتماعی فکر کی ترغیب کے لیے نوافل کے حوالے سے کہہ دیا جائے کہ انفرادی نوافل بعد میں ادا کرلیں پہلے تعلیم میں شریک ہوجائیں یہ درست ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200721

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں