بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

والدین کی رضامندی نہ ہونے کی صورت میں خود سے لڑکی والوں سے رشتہ کی بات کرنا


سوال

مجھے اپنی شادی کے لیے ایک لڑکی پسند آئی ہے، وہ لڑکی ایک نشئی اور نکمے باپ کی بیٹی ہے،  مگر لڑکی ہر لحاظ سے پڑھی لکھی اور سمجھ دار ہے،  میرے امی ابو اس کے باپ کی وجہ سے نہیں مان رہے،  اب اس کا باپ نشئی ہے تو اس میں لڑکی کا کیا قصور ہے، کیا یہ سوچ میرے ماں باپ کی صحیح ہے؟ اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اگر میرے اندر کوئی عیب ہوتا مثال کے طور پر میں معذور ہوتا خدانخواستہ تو یہی میرے ماں باپ اس لڑکی کے پیچھے بھاگ رہے ہوتے کہ اس کا رشتہ ہمارے بیٹے سے ہو جائے۔

برائے مہربانی مجھے کوئی حکم یا مشورہ ضرور دیں کہ میں اپنے رشتے کی بات اگر خود کر لوں تو کیا یہ ماں باپ کی نافرمانی تو نہیں ہوگی؟  وہ لڑکی میری ہمشیرہ  کی بھانجی ہے اور میں نے اپنے رشتے  کی بات اپنے بہنوئی سے کرنے کا سوچا ہے، کیا یہ ٹھیک ہے یا غلط؟ اور یہ بھی بتائیں کہ میرے ماں باپ کی سوچ شرعی اور اخلاقی لحاظ سے ٹھیک ہے یا نہیں؟

جواب

عموماً پسند کی شادی میں وقتی جذبات محرک بنتے ہیں، وقت کے ساتھ ساتھ ان جذبات اور پسندیدگی میں کمی آنے لگتی ہے،  نتیجۃً ایسی شادیاں ناکام ہوجاتی ہیں اورعلیحدگی کی نوبت آجاتی ہے، جب کہ اس کے مقابلے میں خاندانوں اور رشتوں کی جانچ پڑتال کا تجربہ رکھنے والے والدین اورخاندان کے بزرگوں کے کرائے ہوئے رشتے زیادہ پائے دار ثابت ہوتے ہیں اور بالعموم شریف گھرانوں کا یہی طریقہ کارہے، ایسے رشتوں میں وقتی ناپسندیدگی عموماً  گہری پسند میں بدل جایا کرتی ہے؛ اس لیے مسلمان بچوں اوربچیوں کوچاہیے کہ وہ  اپنے ذمہ کوئی بوجھ اٹھانےکے بجائے اپنےبڑوں پراعتماد کریں،  ان کی رضامندی کے بغیر کوئی قدم نہ اٹھائیں۔

نیز شریعت نے لڑکے، لڑکی کے نکاح کا اختیار والدین کو دے کر انہیں بہت سی نفسیاتی و معاشرتی سی الجھنوں سے بچایا ہے، اس لیے کسی واقعی شرعی مجبوری کے بغیر خاندان کے بڑوں کے موجود ہوتے  ہوئے  لڑکے یا لڑکی کا از خود آگے بڑھنا خدائی نعمت کی ناقدری ہے، بےشمار واقعات شاہد ہیں کہ کسی کے بہکاوے میں آکر کیے گئے یہ نادانی کے فیصلے بعد کی زندگی کو اجیرن کر ڈالتے ہیں،  البتہ والد کو بھی چاہیے کہ عاقل بالغ اولاد کی رائے کا احترام کرے اور ایسا رویہ ہر گز نہ رکھے کہ اولاد کوئی ایسا قدم اٹھانے پر مجبور ہوجائے جو سب کے لیے رسوائی کا باعث ہو۔

مذکورہ تفصیل کی روشنی میں آپ اپنی نوعیت پر غور کرسکتے ہیں، بظاہر آپ صرف پسند  کی وجہ سے نکاح کرنا چاہتے ہیں، ایسی صورت میں امکان ہے کہ آئندہ چل کر جب آپ کے متوقع سسر کا رویہ آپ کے ساتھ صحیح نہ ہو، آپ کی آمدن کے ضیاع کا سبب بنیں، یا کچھ عرصے بعد جب چاہت میں کچھ کمی آئے، تو  گھریلو ناچاقیوں کی وجہ سے آپ کا نباہ مشکل نہ ہوجائے۔  آپ کے والدین اس پہلو کو سوچ کر منع کر رہے ہوں گے، لیکن آپ کو ابھی دلی پسند کی وجہ سے ان کا منع کرنا اچھا نہیں لگ رہا۔ اس صورت میں والدین کا منع کرنا بجا ہے، والدین اپنی اولاد کی خیر خواہی کو مدنظر رکھتے ہیں، اس لیے آپ دوسرے پہلو کو بنیاد بناکر منفی سوچنے کے بجائے والدین کی جگہ خود کھڑے ہوکر مثبت سوچ رکھیں۔

ہاں! اگر واقعۃً آپ صرف پسند کی وجہ سے وہاں شادی نہیں کررہے، بلکہ ہم دردی وخیرخواہی اور ثواب کی نیت سے شادی کررہے ہیں (کہ اس لڑکی کا کوئی اچھا رشتہ نہیں آرہا، یا ان کے گھر کی کفالت وغیرہ کی نیت ہے، اور جذبہ یہ ہے کہ اگر اس لڑکی کا آپ سے بہتر کوئی رشتہ آگیا تو آپ فوراً اس رشتے سے پیچھے ہٹ جائیں گے) تو پھر براہِ راست رشتے کی بات کرنے سے بہتر ہے کہ اپنے بہنوئی اور ہم شیرہ یا دیگر رشتہ داروں کے توسط سے بات چلائی جائے، اور والدین کے سامنے بھی اپنا جذبہ و ارادہ پیش کرکے انہیں راضی کرلیا جائے۔ امید ہے کہ اس صورت میں والدین مان جائیں گے۔

واضح رہے کہ یہ جواب اس صورت میں ہے جب کہ آپ کا اس لڑکی سے محرمیت کا کوئی رشتہ نہ ہو،  یعنی آپ کی ہم شیرہ کی بھانجی کا مطلب یہ ہو کہ آپ کی ہم شیرہ اس کی ممانی ہیں اور آپ کے بہنوئی اس لڑکی کے ماموں ہیں۔ لیکن اگر وہ لڑکی آپ کی ہم شیرہ کی سگی بھانجی ہے، تو ظاہر ہے کہ آپ کی بھی بھانجی ہوگی، اور اپنی بھانجی سے نکاح جائز نہیں ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012201765

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں