ہمارے علاقے میں ایک شخص نے 6مرلےزمین مسجد کے لیے وقف کردی تھی، چوں کہ وہ جگہ کم تھی اس کے رشتہ داروں نے اس کے بدلے میں 15مرلےزمین اس کے نزدیک خرید لی اس پر مسجد بنا دی، سوال یہ ہے کہ اس 6 مرلےپر لڑکیوں کا مدرسہ بنا یا جا سکتا ہے کہ اس میں امامِ مسجد کا گھر بھی ہو؟
نو ٹ جس شخص نے 6مرلےچھوڑی ہے وہ فوت ہو چکا ہے!
صورتِ مسئولہ میں جو 6 مرلہ زمین مالک نے مسجد کے نام سے وقف کی تھی وہ جگہ مسجد ہی کے لیے وقف رہے گی، اس جگہ لڑکیوں کا مدرسہ یا کوئی اور چیز بنانا جائز نہیں۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"إذا قال: جعلته مسجدًا فالعرف قاض، وماض بزواله عن أيضًا غير متوقف على القضاء، وهذا هو الذي ينبغي أن لايتردد فيه، نهر". (ج:4، ص: 356، ط: سعيد)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"ولايجوز تغيير الوقف عن هيئته فلايجعل الدار بستانًا ولا الخان حمامًا ولا الرباط دكانًا". (ج:2، ص: 490، ط: رشيديه)
تنقیح الفتاویٰ الحامدیہ میں ہے:
"ولايجوز للناظر تغير ضيعة الواقف كما افتي به خير الرملي والحانوتي وغيرهما". (ج: 1، ص: 115، الطبعة الميمنية مصر) فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144105200117
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن