سعد نے ولید سے کہا کہ میرے لیے بازار سے کپڑے لے آؤ.بازار میں سوٹ 700 کا ملا، لیکن ولید نے اس پر سعد سے منافع یا کمیشن لے کر ولید سے 900 روپے وصول کیے، کیا یہ زیادت جائز ہے یا پھر حرام ہے؟ کمیشن کی شرعی حیثیت اور طریقہ کار کے بارے میں وضاحت کردیں!
واضح رہے کہ اگر کوئی شخص دوسرے کو یہ کہتا ہے کہ آپ میرے لیے بازار سے فلاں چیز لے آؤ تو یہ توکیل (وکیل بنانے) کا معاملہ ہے، یعنی پہلے شخص نے دوسرے کو اپنا وکیل بالشراء بنایا ہے، اور وکالت جس طرح اجرت کے بدلے ہوتی ہے، اسی طرح بطورِ تبرع بھی ہوتی ہے، اور بطورِ وکیل کوئی کام کرنے پر وکیل کو اجرت لینے کا حق اس وقت ہوتا ہے جب وکالت کے وقت صراحۃً اجرت کی شرط لگالی گئی ہو یا پھر یہ دوسرا آدمی (وکیل) معروف اجرت کے بدلے ہی کام کرنے میں مشہور ہو، یعنی اس کا پیشہ ہی یہ ہو کہ وہ معروف اجرت کے بدلہ کام کر کے دیتا ہو، لیکن اگر ان دونوں باتوں میں سے کوئی ایک بھی نہ پائی جائے تو پھر وکیل کو مؤکل سے اجرت لینے کا کوئی حق نہیں ہے۔
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں ولید کا بطور وکیل سعد کے لیے بازار سے سات سو (۷۰۰) روپے کا سوٹ خرید کر پھر اس میں اپنا کمیشن یا اجرتِ وکالت ملاکر سعد سے نو سو (۹۰۰) روپے وصول کرنا جائز نہیں ہے، بلکہ مذکورہ سوٹ ولید نے جتنے روپے کا خریدا ہو اتنے ہی پیسے سعد سے وصول کرسکتا ہے، البتہ اگر ولید ابتداءً ہی اپنی محنت اور وقت کے بدلہ میں سعد سے اجرت طے کرلے یا ولید معروف اجرت کے بدلے ہی کام کرنے میں مشہور ہو، یعنی اس کا پیشہ ہی یہ ہو کہ وہ اجرت کے بدلے کام کر کے دیتا ہو تو پھر طے شدہ/معروف اجرت یا کمیشن وصول کرنا جائز ہوگا۔فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 143908200744
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن