پرائیوٹ اسکول زکات کیسے ادا کرے؟
اگر آپ کے سوال کا مطلب یہ ہے کہ پرائیوٹ اسکول کی وہ اشیاء جن کو بیچ کر اس سے نفع حاصل نہیں کیا جاتا، مثلاً اسکول کی عمارت، ٹیبل، کرسیاں، گاڑیاں وغیرہ اُن پر زکاۃ کا کیا حکم ہے؟ تو واضح رہے کہ ان اشیاء پر زکات لازم نہیں ہو گی۔
اور اگر آپ کا مطلب یہ ہے کہ اسکول کا مالک زکاۃ کیسے ادا کرے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اسکول کا مالک سونا، چاندی، کیش اور مالِ تجارت میں سے جن اشیاء کا مالک ہو اگر اُن کی مجموعی مالیت ساڑھے باون تولے چاندی کی مقدار کو پہنچتی ہو تو اس نصاب کے مکمل ہونے پر سال گزرنے پر اُس کا ڈھائی فیصد مستحقِ زکاۃ کو دینا لازم ہو گا۔
اور اگر اسکول کی جمع شدہ آمدن پر زکاۃ کے متعلق سوال ہے تو اگر جمع شدہ فیسیں اسکول کے اخراجات نکالنے کے بعد مالک کی شخصی ملکیت تصور کی جاتی ہیں تو وہی اس کا مالک ہوگا، اور دیگر قابلِ زکات اموال کے ساتھ اس کی بھی زکات ادا کرے گا۔ اور اگر اسکول کی کمیٹی یا ٹرسٹ ہے، اور اخراجات نکالنے کے بعد بقیہ رقم ٹرسٹ کی ملکیت سمجھی جاتی ہے، کسی کی شخصی ملکیت نہہیں ہوتی تو اس رقم پر بھی زکات نہیں ہوگی۔
اور اگر آپ کے سوال کا مقصد کچھ اور ہے تو وضاحت کردیجیے، اس کی روشنی میں جواب ارسال کردیا جائے گا۔فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144004200394
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن