میرے والد کو وراثت میں پندرہ (۱۵) لاکھ روپے ملے تھے تو ہم نے ان پیسوں میں اور پیسے ملاکر اپنا گھر خریدنے کا ارادہ کیا مگر ہم کو گھر نہ مل سکا تو ہم نے اس کی جگہ ایک دکان قسطوں پر لے لی جو ہمیں شعبان کے مہینے میں دینے کا کہہ رہا ہے بلڈر، اب اس دوکان کے پیسوں میں میری والدہ اور بیوی کے زیور کے پیسے بھی شامل ہیں اور میں نے اپنے آفس سے بھی قرض لے کر لگایا اور ہمارا یہ ارادہ ہے کہ ہم اس دوکان کو کچھ وقت تک کرائے پر دے کر اپنے گھر کا کرایہ ادا کریں گے اور جب اچھے پیسے ملیں گے تو ہم اس کو فروخت کر کے ان شاءاللہ تعالیٰ اپنا گھر لیں گے، تو مجھے یہ معلوم کرنا ہے کہ کیا اس دوکان پر زکاۃ ہو گی یا نہیں؟ اور اگر ہوگی تو کس طریقہ سے نکالی جائے گی؟
صورتِ مسئولہ میں جب دوکان کی خریداری کے وقت کرایہ پر چڑھانے کی نیت ہے تو اس دکان کی ویلیو پر زکاۃ واجب نہ ہوگی، کرایہ حاصل ہونے کے بعد اگر مصارف میں خرچ ہوجاتاہے تو اس پر بھی زکاۃ واجب نہیں ہوگی۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144106200340
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن