میں نے اپنی بیوی کو جھگڑے کے دوران کہا : ’’کل میری مرضی کے بغیر گھر سے قدم نکالا تو طلاق سمجھنا‘‘، پھر ساتھ ہی اس کو کہا : ’’چلو طلاق تو نہیں، لیکن میں بہت برا کروں گا‘‘ ۔اگلے دن بیوی بغیر پوچھے باہر نکل گئی ۔ اس صورت میں طلاق ہوئی یا نہیں؟ اور اگر ہوئی تو رجوع کی کیا صورت ہو گی؟ یا کیا گنجائش ہے ؟ برائے کرم تفصیل سے جواب عنایت فرمائیں!
صورتِ مسئولہ میں آپ کی بیوی پر کوئی طلاق نہیں ہوئی؛ کیوں کہ لفظِ ’’ طلاق سمجھنا‘‘ کہنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی ہے۔
الفتاوى الهندية (1/ 380):
"امرأة قالت لزوجها: " مرا طلاق ده " فقال الزوج: " داده كيرو كرده كير " (أي افرضي أنه أعطي و فعل ) أو قال: " داده باد وكرده بادان نوى " يقع ويكون رجعياً وإن لم ينو لايقع ولو قال: داده است أو كرده است يقع نوى أو لم ينو ولايصدق في ترك النية قضاءً، ولو قال: داده إنكار أو كرده إنكار (أي ظني أنه أعطي أو ظني أنه فعل) لايقع وإن نوى".
خیر الفتاویٰ (ج:۵ ؍ ۱۴۷ ) میں ہے:
’’طلاق ہی سمجھو‘‘ کو طلاق نہ سمجھیں:
سوال:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب:طلاق ہی سمجھو ’’دادہ انگار‘‘ کے مشابہہ ہے۔ لہٰذا عورت مذکورہ پر طلاق واقع نہیں ہوئی، بلکہ بدستور اپنے خاوند کے نکاح میں ہے‘‘۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144008200205
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن