بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا بہو پر ساس، سسر اور دیور کی خدمت کرنا لازم ہے؟


سوال

کیا دین اسلام میں بہو پر ساس،سسراور دیور  کی خدمت فرض ہے؟اگر نہیں  کرتی  تو وہ گناہ گار ہوگی، جب کہ  خدمت کرنے کے باوجود بھی ان کو ذلیل وخوار  دیور اور ساس کی طرف سے کیا  جاتا ہے؟

جواب

میاں بیوی کا باہمی اور اسی طرح سسرالی رشتہ حسنِ اخلاق، حسنِ معاشرت  اور ہم دردی و ایثار  کے جذبہ سے ہی چل سکتا ہے، شریعتِ مطہرہ نے میاں بیوی کے حقوق میں توازن رکھا ہے  اور حسنِ معاشرت کا حکم دے کر   یہ واضح کیا ہے کہ میاں بیوی کا رشتہ باہم اخلاقیات اور ایثار اور ہم دردی سے چلتا ہے،  کچھ چیزیں  بیوی کے ذمہ لازم نہیں کیں، اور کچھ شوہرکے ذمہ لازم نہیں کیں، لیکن حسنِ معاشرت کے باب میں دیانۃً اور اخلاقاً یہ چیزیں  دونوں کی ایک  دوسرے پر لازم ہیں۔

لہذا بہو کے  ذمہ  اپنے ساس اور سسر کی خدمت  اگرچہ شرعًا واجب نہیں ہے اور خدمت نہ کرنے سے وہ گناہ گار نہیں ہوگی، لیکن اَخلاقی طورپر بہو کو  اِس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ساس اور سسر  اُس کے شوہر کے ماں  باپ ہیں،  لہٰذا جس طرح  وہ اَپنے ماں باپ  کی راحت کا خیال رکھتی ہے  اِسی طرح شوہر کے ماں باپ کی خدمت اور اُن کو راحت پہنچانا اُس کی اخلاقی ذمہ داری میں شامل ہے۔

لیکن اس میں یہ پہلو بھی پیشِ نظر ہونا چاہیے کہ شوہر کا اپنی بیوی کو اپنے والدین کی خدمت پر خدمت پر مجبور کرنا اور اس پر  ظلم  و جبر کرنا درست نہیں ہے،(بلکہ خود شوہر   پر اپنے والدین کی خدمت کرنا اور ان کے  لیے کھانے کا انتظام کرنا ضروری ہے)  یعنی دونوں طرف اعتدال کی ضرورت ہے، شوہر  ترغیب دے سکتا ہے پیار و محبت سے، زبردستی نہیں کرسکتا، اسی طرح بہو کو بھی  چاہیے کہ وہ اس خدمت سے یہ کہہ کر انکار نہ کرے کہ یہ میرے ذمہ نہیں ہے،  کیوں کہ شوہر بھی بیوی کے متعدد ایسے کام کرتا ہے جو اس کے ذمہ واجب نہیں ہوتے، اگر میاں بیوی ایک دوسرے کو یہ کہنا شروع کردیں کہ تمہارا یہ کام میرے ذمہ نہیں تو وہ دونوں خوشگوار زندگی نہیں گزارسکتے ہیں،  اسی طرح ساس اور سسر کو بھی  چاہیے کہ وہ اپنی بہو کو بیٹی کی طرح سمجھیں ، اسے عزت دیں، ذلیل نہ کریں، اور اس کے دکھ درد میں شریک ہوں، اور بہو کو چاہیے کہ وہ ساس و سسر  کو اپنے ماں باپ کی طرح سمجھے اور اس کی خدمت کو اپنے لیے سعادت سمجھے، اس سے گھریلو زندگی میں خوش گوار ماحول پیدا ہوگا، اور میاں بیوی کا ازدواجی رشتہ پائے دار اور مستحکم ہوگا۔

البتہ شوہر  کے لیے اپنی بیوی  کو اپنے والدین کی خدمت کے ساتھ ساتھ اپنے بھائی (بیوی کے دیور)  کی بھی خدمت  پر مجبور  کرنا درست نہیں ہے، بلکہ دیور سے شرعی طور پر پردہ کرنا ضروری ہے، پردے کا اہتمام کرتے ہوئے بیوی اپنی خوشی سے جو خدمت  (مثلًا: کھانا پکانا، کپڑے دھونا وغیرہ)  انجام دینا چاہے وہ دے سکتی ہے۔

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ  ’’بہشتی زیور‘‘ میں خواتین کو خطاب کرکے تحریر فرماتے ہیں:

’’جب تک ساس خسر زندہ رہیں ان کی خدمت کو، ان کی تابع داری کو فرض جانو، اور اسی میں اپنی عزت سمجھو، اور ساس نندوں سے الگ ہوکر رہنے کی ہرگز فکر نہ کرو، ساس نندوں سے بگاڑ ہوجانے کی یہی جڑ ہے، خود سوچو کہ ماں باپ نے اسے پالا پوسا اور بڑھاپے میں اس آسرے پر اس کی شادی بیاہ کیا کہ ہم کو آرام ملے اور جب بہو آئی، ڈولے سے اترتے ہی یہ فکر کرنے لگی کہ میاں آج ہی ماں باپ کو چھوڑدیں ۔۔۔ جو کام ساس نندیں کرتی ہیں تو اس کے کرنے سے عار نہ کرو، تم خود بے کہے ان سے لے لو اور کردو، اس سے ان کے دلوں میں تمہاری محبت پیدا ہوجائے گی۔‘‘

(بہشتی زیور، حصہ چہارم، نکاح کا بیان، [باب: 31] (ص:47، 48) ط: تاج کمپنی کراچی)

جامعہ کے رئیس دار الافتاء حضرت مولانا مفتی محمدعبدالسلام چاٹ گامی صاحب دامت برکاتہم العالیہ ایک فتوے میں تحریر فرماتے ہیں:

’’اگر بیوی فارغ ہو تو سسر اور ساس کی جائز خدمت کرنا اس پر لازم ہے، انسانی ہم دردی کے علاوہ اس وجہ سے بھی کہ وہ شوہر کے والدین ہیں، شوہر کے والدین کی خدمت کرنا درحقیقت شوہر کی خدمت کرنا ہے، البتہ جب وہ فارغ نہ ہو یا کوئی ایسی خدمت جو انجام دینا اس کے لیے درست نہیں، وہ بہو کے ذمہ نہیں ہے۔ فقط واللہ اعلم‘‘

(کتبہ: محمد عبدالسلام، 4/2/1412)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200083

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں