ایک رفاہی ادارہ ہے جس میں زکات وصول کی جاتی ہے، کیا وہ کسی دوسرے رفاہی ادارہ سے صدقات لے کر اپنے ادارہ میں دے سکتا ہے؟ کیوں کہ اس ادارہ کے پاس مستحقینِ زکات میسر نہیں ہیں جب کہ صدقات لینے والے غرباء زیادہ ہیں۔
مثال کے طور پر عالمگیر ٹرسٹ کے پاس زکات فنڈ بہت زیادہ ہیں، لیکن لینے والے نہیں ہیں، جب کہ سیلانی ٹرسٹ کے پاس صدقات زیادہ ہیں اور لینے والے غرباء زیادہ ہیں، تو کیا عالمگیر ٹرسٹ والے زکات سیلانی ٹرسٹ کو دے دیں اور ان سے صدقات لے لیں؟ کیا شرعاً ایسا کرنا درست ہوگا؟
واضح رہے کہ رفاہی و فلاحی اداروں میں جو احباب اپنی زکات جمع کراتے ہیں اس کا مقصد مستحقینِ زکات تک زکات پہنچانا ہوتا ہے، مستحقین تک زکات پہنچانے کے سلسلہ میں فلاحی ادارہ کی حیثیت وکیل کی ہوتی ہے، جس کا شرعی حکم یہ ہے کہ وکیل اپنے مؤکل کی منشا کے مطابق عمل کا پابند ہوتا ہے، اس کی منشا کےخلاف اپنی مرضی و اختیار سے کسی تصرف و اقدام کا حق اسے نہیں ہوتا۔فتاوی ہندیہ میں ہے:
"و تعتبر نية المؤكل في الزكوة دون الوكيل". (كتاب الزكوة، ١/ ١٧١، ط: رشيدية)
فتاوی شامی میں ہے:
"وهنا الوكيل إنما يستفيد التصرف من المؤكل و قد أمره بالدفع الي فلان، فلا يملك الدفع الي غيره". (٢/ ٢٦٩، ط: سعيد)
لہذا صورتِ مسئولہ میں ہر رفاہی و فلاحی ادارے پر لازم ہے کہ ادارہ میں جمع شدہ مختلف مدات کی رقوم ان کے صحیح مصارف میں خرچ کرے، کسی اور ادارے سے مدات تبدیل کرنے کی اسے شرعاً اجازت نہیں۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144001200506
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن