حدیث ’’لا رهبانیة في الإسلام‘‘ حدیث کی کس کتاب میں ہے؟ اور اس کا درجہ کیاہے؟ نیز علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کا یہ فرمان کہ : یہ روایت مجھ تک ان الفاظ سے نہیں پہنچی، کا کیا مطلب ہے؟
"لا رهبانية في الإسلام" کے الفاظ حدیث کی کسی بھی معتمد کتاب سے ثابت نہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے کلام کا بھی یہی مطلب ہے کہ بعینہ ان الفاظ کے ساتھ میں نے کوئی روایت نہیں دیکھی۔ اس لیے بعینہ ان الفاظ کو حدیث کہہ کر بیان کرنا جائز نہیں۔
البتہ دیگر ثابت شدہ روایات کی روشنی میں معنوی اعتبار سے یہ بات درست ہے کہ اسلام میں رہبانیت نہیں ہے، یعنی اس کا مضمون ثابت ہے، یہ الفاظ بطورِ حدیث ثابت نہیں ہیں، اس لیے اگر کسی نے رسول اللہ ﷺ کی طرف نسبت کیے بغیر یہ بات کہی یا روایت بالمعنیٰ کہہ کر بیان کیا تو یہ ممانعت میں داخل نہیں ہوگا۔
"وَأَمَّا حَدِيثُ لَا رَهْبَانِيَّةَ فِي الْإِسْلَامِ فَلَمْ أَرَهُ بِهَذَا اللَّفْظِ، لَكِنْ فِي حَدِيثِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ عِنْدَ الطَّبَرَانِيِّ: إِنَّ اللَّهَ أَبْدَلَنَا بِالرَّهْبَانِيَّةِ الْحَنِيفِيَّةَ السمحة. وَعَن ابن عَبَّاسٍ رَفَعَهُ: لَا صَرُورَةَ فِي الْإِسْلَامِ. أَخْرَجَهُ أَحْمَدُ وَأَبُو دَاوُدَ وَصَحَّحَهُ الْحَاكِمُ . وَفِي الْبَابِ حَدِيثُ النَّهْيِ عَنِ التَّبَتُّلِ، وَسَيَأْتِي فِي بَابٍ مُفْرَدٍ" . (فتح الباري : ٩/ ١١١) فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 143907200141
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن