میرا ایک دوست ملک سے باہر کام کرتا ہے اور اس کی اتنی آمدنی ہے کہ جس سے وہ اپنی فیملی کی ماہانہ ضروریات پوری کر پاتا ہے، مذکورہ دوست نے ایک گھر خریدا ہے ، جس کی 30 فیصد ادائیگی اب تک کر پایا ہے، کیا میں اسے زکات دے سکتا ہوں کہ وہ اپنے گھر کی بقایا قیمت چکا سکے؟
دوسری طرف اس کے والدین کا ایک گھر ہے جو ان کی موجودہ رہائش سے کافی دور ہے اور وہ اپنے والدین کو ان کے گھر میں اکیلے چھوڑ نہیں سکتا، کیوں کہ وہ خود پاکستان میں نہیں رہتا، جس کی وجہ سے اس کے والدین اپنے دوسرے بیٹے کے پاس رہتے ہیں، والدین کا مذکورہ گھر ان کی وفات کے بعد تین بیٹوں اور دو بیٹیوں میں تقسیم ہوگی، فی الحال والدین حیات ہیں، جب وفات ہوگی تب تقسیم ہوگی اور کس کے حصہ میں کتنی رقم آتی ہے یہ تو اس وقت ہی معلوم ہوگا، تاہم موجودہ صورت حال میں کیا میں اپنے دوست کو زکات دے سکتا ہوں؟
صورتِ مسئولہ میں مکان کی قیمت اگر قسطوں میں طے ہے تو رواں سال ادا کی جانے والی قسطوں کی رقم نکالنے کے بعد اگر آپ کے مذکورہ دوست کے پاس ضرورت سے زائد اتنی رقم یا سامان نہیں ہے جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہو تو آپ اسےزکات دے سکتے ہیں۔والدین چوں کہ حیات ہیں، اس وجہ سے ان کا گھر والدین کا ہی ہے، ان کی زندگی میں اس گھر پر اولاد میں سے کسی کا حق نہیں، صاحبِ نصاب ہونے نہ ہونے میں ہر شخص کی اپنی حیثیت کا شرعاً اعتبار کیا جاتا ہے۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144004200910
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن