پوچھنا یہ ہے کہ سرکاری ملازمین کوحکومت کی طرف سے ہاؤس بلڈنگ فنانس کا قرضہ دیا جا تاہے 36تنخواہوں کے برابر مکان بنانے کے لیے، اور دس سال کی قسطوں میں تنخواہ سے وصول ہوتا ہے ۔ اس رقم پر زکاۃ کا کیا حکم ہے؟
اگر کوئی شخص طویل المیعاد قرض لے (مثلاً: قرض کی مذکورہ صورت جس کی ادائیگی دس سال میں کرنی ہوتی ہے)تو اس کے لیے یہ حکم ہے کہ ہر سال دیگر قابلِ زکاۃ اموال کی زکاۃ کی ادائیگی کے وقت اس سال واجب الادا قرضہ (یعنی مکمل قرضہ میں سے جتنی مقدار ادا کرنا اسی سال ذمہ پر ہو اس) کے بقدر منہا کر کے باقی کی زکاۃ ادا کی جائے گی بشرطیکہ باقی مال نامی (سونا چاندی، نقدی، مالِ تجارت) نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت) تک پہنچ رہا ہو۔
نوٹ: اگر حکومت کی طرف سے ہاؤس بلڈنگ فنانس کا قرضہ سود پر دیا جاتا ہو یعنی جتنا قرضہ دیا ہو قسطوں کی صورت میں حکومت اس سے کچھ زیادہ وصول کرتی ہو تو اس طرح کا سودی قرضہ لینا جائز نہیں ہے، کیوں کہ سودی قرضہ کا لین دین بنصِ قرآنی ناجائز اور حرام ہے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 166)
''وفي الأشباه: كل قرض جر نفعاً حرام۔
(قوله: كل قرض جر نفعاً حرام) أي إذا كان مشروطاً''۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 259)
''(وسببه) أي سبب افتراضها (ملك نصاب حولي) نسبة للحول؛ لحولانه عليه (تام) ۔۔۔ (فارغ عن دين له مطالب من جهة العباد)''۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 143909201541
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن